اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی ذرائع ابلاغ نے انڈونیشیا میں پاکستانی سفیر عاقل ندیم کے حالے سے بتایا ہے کہ انڈونیشیا کی حکومت نے منشیات رکھنے کے جرم میں سزائے موت پانے والے پاکستانی قیدی ذوالفقار علی کی ’’سزا پر عمل درآمد روک دیا ہے‘‘۔
اس سے قبل، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے انڈونیشیا سے پاکستانی شہری سمیت دیگر ممالک کے 14 قیدیوں کی سزائے موت روکنے کی اپیلیں کی گئی تھیں، تاہم اُنھیں مسترد کر دیا گیا تھا۔
ان افراد کی سزاؤں پر جمعہ کی صبح عمل درآمد کیا جانا تھا۔ پاکستان کی طرف سے ذوالفقارعلی کی سزا پر عمل درآمد کو رکوانے کے لیے حالیہ ہفتوں میں سفارتی سطح پر بھرپور کوششیں کی گئیں۔
52 سالہ ذوالفقار علی گزشتہ بارہ سالوں سے انڈونیشیا میں قید ہے، 2004 میں اُن سے تین سو گرام ہیروئین برآمد ہوئی تھی۔ تاہم، ذوالفقار علی ان الزامات سے مسلسل انکار کرتے آئے ہیں۔
اس سے قبل کی اطلاعات میں، پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو کہا کہ انڈونیشیا میں پاکستان کے سفیر نے اس معاملے کو ہر سطح پر اُٹھایا اور یہ کوششیں ختم نہیں کی جائیں گے۔
نفیس ذکریا نے کہا کہ ’’میں یقین دلاتا ہوا کہ ہم نے ہر سطح پر کوشش کی ہے اور ہم یہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہم آخری لمحے تک اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔‘‘ انڈونیشیا کے حکام کی طرف سے سزائے موت کے ان قیدیوں کے اہل خانہ کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ‘جسٹس پروجیکٹ پاکستان’ کی طرف سے جہاں ذوالفقار علی کی سزا پر نظر ثانی کی اپیل کی گئی وہیں یہ بھی کہا گیا کہ اُن کے خلاف گواہی دینے والے شخص نے اپنا بیان بدل دیا تھا۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ ذوالفقار علی کو وکیل کی سہولت بھی حاصل نہیں تھی۔