تحریر : عبد الرزاق ہندوستانی سر زمین پر پاکستانی ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی نے ہندوستانی اخبار نویسوں کے ساتھ منعقدہ ایک نشست میں بھارتیوں کے حسن سلوک کی تعریف کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ انھیں بھارت میں پاکستان سے بھی زیادہ پیار ملا ہے شاہد آفریدی نے مزید کہا کہ انھیں ہمیشہ ہندوستان میں کھیلنے کا مزہ آتا ہے جبکہ اپنی گفتگو میں وہ بھارتی کرکٹرز سے بھی کافی متاثر نظر آئے اور انہوں نے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے بھی فرمایا کہ وہ ٹورنامنٹ میں عمدہ کار کردگی کا مظاہرہ کرے گی آفریدی جو بظاہر بھار تیوں کی محبت کے اسیر دکھائی دئیے اس بات کو بھول گئے کہ بھارتیوں کی جانب سے کس کس قسم کے دھمکی آمیز بیانات منظر عام پر آئے اور پاکستانی حکومت وعوام اپنی ٹیم کے حفاظتی معاملات پر کس قدر متفکر تھے۔
ہندوستانی لوگوں سے متعلق دادو تحسین کے جملوں کی ادائیگی کا سلسلہ صرف آفریدی تک ہی محدود نہ رہابلکہ پاکستان کے ایک اور معروف کرکٹر شعیب ملک نے بھی آفریدی کا بھرپور ساتھ دیا اور فرمایا کہ انھیں ہندوستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے کبھی کوئی مسئلہ دکھائی ہی نہیں دیا ۔ ہندوستانی لوگ سراپا محبت ہیں اور انھیں ہمیشہ بھارتیوں سے محبت کے پھول ہی ملے ہیں ۔ شاہد آفریدی اور شعیب ملک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی وکٹ کیپر بیٹسمین سر فراز احمد نے بھی اپنی جانب سے ہندوستانیوں کی محبت کا دم بھرتے ہوئے بھرپور ستائشی کلمات ادا کیے اور ایم ایس دھو نی کو اپنا آئیڈیل قراردیا ۔ سر فراز نے کہا کہ دھونی ایک عظیم کھلاڑی ہے وہ دھونی جیسا بننا چاہتے ہیں۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ بھارتی کھلاڑیوں کا جادو نہ صرف پاکستانی مرد کرکٹرز کے سر چڑھ کربول رہا ہے بلکہ پاکستان کی وومن کرکٹ ٹیم کی ایک اہم رکن بسمہ معروف بھی بھارتی کرکٹرویرات کوہلی سے متاثر نظر آتی ہیں اور انھوں نے بھی کوہلی کو اپنا آئیڈیل قرار دے دیا ۔ بسمہ معروف نے نہ صرف ویرات کوہلی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا بلکہ ان سے بیٹنگ ٹپس لینے کا بھی عندیہ ظاہر کیا۔ یہ تمام وہ بیانات اور خواہشات ہیں جو پاکستانی کرکٹرز نے ہندوستانی سر زمین پر جا کر آشکار کی ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ پاکستانی کرکٹرز نفسیاتی طور پر کس سطح پر براجمان ہیں میں اپنے ان ہیروز کو اپنی تحریر کی وساطت سے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ایک وقت تھا جب ہندوستانی عوام اور کھلاڑی پاکستانی کھلاڑیوں کے مداح ہوا کرتے تھے۔
Pakistan Team
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹسمینوں کی جارحانہ بیٹنگ اور باولروں کی طوفانی بولنگ سے ہندوستانی ٹیم خوف زدہ تھی اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کا طوطی ہندوستان بھر میں بولا کرتا تھا پاکستانی کرکٹرز کے ٹیلنٹ اور کارکردگی کا ڈنکا ہندوستان کے گلی کوچوں میں بجا کرتا تھا ہندوستانی عوام اپنی محبتیں پاکستانی کرکٹرز پر نچھاور کرتی تھی ان سے ملاقات کو قابل فخر سمجھتی تھی ۔ پاکستانی ٹیم میں عمران خان ، محسن خان اور جاوید میانداد جیسے محب وطن پاکستانی ایسا کردار تھے جنہوں نے ہندوستانی سر زمین پر اپنے ملک کے وقار کو سر بلند کیا ۔ جاوید میانداد کے اس تاریخی چھکے کو تو ہندوستانی عوام آج تک بھلا نہ پائی ہو گی جو انہوں نے شارجہ میں میچ کی آخری گیند پر چتن شرما کو لگایا تھا ۔ جس کے بعد نہ صرف چتن شرما کے چھکے چھوٹ گئے تھے بلکہ پوری ہندوستانی قوم کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
مدتوں اس چھکے کی گونج ہندوستان کی فضاؤں میں معلق رہی ۔ ہندوستان میں ہر کوئی جاوید میانداد کا مداح تھا اس کی بیٹنگ پر تبصروں اور تجزیوں کے انبار دکھائی دیتے تھے اسی طرح جب عمران خان ہندوستانی بیٹسمینوں کو باؤلنگ کروانے کے لیے ردھم بھرتے تو ہندوستانی بیٹسمینوں کی ٹانگیں کانپ جایا کرتی تھیں پوری ہندوستانی ٹیم پاکستانی ٹیم سے خائف تھی ۔ جس طرح آج پاکستانی کرکٹرز ہندوستانی کرکٹرز کے گیت گا رہے ہیں ایسے ہی ہندوستانی عوام، میڈیااور کھلاڑی ہماری ٹیم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور عمران خان و جاویدمیانداد ان کے آئیڈیل کھلاڑی تھے۔
بعدازاں وسیم اکرم اور وقار یونس نے بھی ہندوستانیوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھی ۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کرکٹ ٹیم نے ہندوستان کو نہ صرف اپنی سر زمین پر بلکہ شارجہ اور ان کے اپنے وطن ہندوستان میں عبرتناک شکستوں سے دو چار کیا اور خوب دھول چٹائی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج آسمان رنگ بدل چکا ہے تب جو حالت اور کیفیت ہندوستانی ٹیم کی ہوا کرتی تھی وہ صو رتحال اب پاکستانی ٹیم کی ہے اور تب ہندوستانی ٹیم کی شکست پر جو ذلت ہندوستانی عوام کو اٹھانا پڑتی تھی آج پاکستانی ٹیم کی ہار پر وہ خفت پاکستانی عوام کو اٹھانا پڑتی ہے۔
Sharjah Cricket Stadium
ایک وقت تھا جب شارجہ میں کرکٹ کا میلہ سجنا معمول تھا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میچ اکثر شارجہ میں منعقد ہوا کرتے تھے پاکستانی ٹیم نے ہندوستان کو شارجہ میں پے در پے اتنی عبرتناک شکستوں سے دو چار کیا کہ ہندوستان شارجہ میں کھیلنے ہی سے انکاری ہو گیا اور اک عرصہ تک شارجہ میں پاکستان کے خلاف کھیلنے سے گریزاں رہا اور وجہ تھی صرف ہار کا خوف ۔ ۔پھر آسمان نے کچھ ایسا پانسہ پلٹا کہ 1992 کے بعد عمران خان ریٹائر ہو گئے بعد ازاں جاوید میانداد بھی کھیل کے میدان سے رخصت ہو گئے وسیم و وقار کی جوڑی بھی ٹیم کو خیر باد کہہ گئی اور پاکستانی کرکٹ ٹیم زوال کا شکار ہو گئی ۔ ایک جانب پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں تنزلی کا دور شروع ہوا تو دوسری جانب ہندوستانی کرکٹ پھلنا پھولنا شروع ہو گئی ۔ پاکستانی کرکٹ پر سیاست کا رنگ چڑھ گیا۔
پے در پے کپتانوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور ٹیم کے اندرونی اختلافات جڑ پکڑ گئے ۔ سلیکٹر ز نے بھی من پسند کرکٹرز کو ٹیم میں لینا شروع کر دیا اور یوں آہستہ آہستہ پاکستانی کرکٹ زبوں حالی کا شکار ہو گئی اور کارکردگی میں تنزلی کا یہ سفر ہنوز قائم ہے اور اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ ہم ایشیا کپ جیسے اہم ایونٹ میں بنگلہ دیش سے بھی ہار جاتے ہیں اور کمزور سے کمزور ٹیموں کے خلاف بھی میچ ہو تو قوم کو دعائیں کرنا پڑتی ہیں۔ اگر چہ ہندوستانی کرکٹرز کی صلاحیت کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ۔وہ صلاحیت کے اعتبار سے قابل تعریف ہیں۔
لیکن ہمارے کرکٹرز کو ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے اس طرز عمل سے ہندوستانی کرکٹرز کا مورال بلند ہوتا ہے اور وہ نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو برتر خیال کرتے ہیں جو ایک مد مقابل ٹیم ہونے کے حوالے سے نفسیاتی اعتبار سے پاکستانی ٹیم کے لیے ضرررساں ہے ۔ لہٰذا پاکستانی کرکٹرز کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ جب بھی ہندوستانی کرکٹرز کے بارے میں اپنے خیالات کا ظہار کریں تو اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے اور جذبات کی رو میں بہہ کر یہاں تک نہ کہہ دیں کہ ان کو ہندوستان میں پاکستان سے بھی بڑھ کر محبت ملی ہے۔