تحریر : حوریہ ایمان ملک، سرگودھا ایک بزرگ ہاتھ میں فائل پکڑے لڑکی کے سامنے بیٹھا تھا۔ خوش اخلاق لڑکی نے بزرگ کی بات نہایت دھیان سے سنی پھر بزرگ کی مطلوبہ فائل پر کام کرنے لگی ۔ ”میں تمہارے باپ جیسا ہوں “ بزرگ نے باتوں کے دوران اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے لڑکی سے کہا ۔یہ سننا ہی تھا کہ اس خوش اخلاق لڑکی نے فائل اٹھا کر بزرگ کے سامنے پھینک دی اور انہیں فورا دفعہ ہوجانے کو کہا۔ بیچارہ بزرگ فائل پکڑے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میں ہکی بکی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اس خوش اخلاق لڑکی کی یہ حرکت اس کی کولیگ بھی دیکھ رہی تھی ۔ کولیگ نے لڑکی سے اس تلخ رویے کی وجہ پوچھی ۔ لڑکی بولی ۔ اس آدمی نے کہا یہ میرے باپ جیسا ہے اگر یہ میرے باپ جیسا ہے تو یہ یہی ڈیزرو کرتا ہے۔
میں جو ابھی تک ششدر تھی کہ آخر یہ ماجراکیا ہے ۔ اچھی بھلی خوش اخلاق لڑکی اچانک اتنی سی بات پر کیسے آپے سے باہر ہوگئی کہ ایک بزرگ کی اتنی بے عزتی کردی ۔ قسط وار ڈرامہ ”مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے“ ختم ہوچکا تھا مگر میں اس ایک سین میں الجھ کر رہ گئی ۔ آخر اس بزرگ کا قصور کیا تھا۔ صرف یہ کہنا کہ میں تمہارے باپ جیسا ہوں۔ لڑکی کا رویہ ایسا کیوں تھا ۔ صرف اس لیے کیونکہ وہ اپنے باپ سے نفرت کرتی تھی اور نفرت کرنے کا جواز بھی تھا اس کے پاس کیونکہ اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی اور پہلی بیوی سے بے اعتنائی برتی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بیٹے کی ماں نہ بن سکی بلکہ چار بیٹیوں کو جنم دینے والی ماں تھی ۔ وہ لڑکی اسی ماں کی ایک بیٹی تھی جسے بچپن میں ماں پرکیے جانے والے ظلم اور باپ کی بے اعتنائی نے باپ سے متنفر کردیا۔ باپ پر غصہ فطری بات ہے۔
مانا کہ باپ کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر اس کی ماں نے الگ رہنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ تنہا زندگی گزاری ۔ ان کی اچھی پرورش کی انہیں تعلیم دلواءیہاں تک کہ وہ بیٹیاں اتنی قابل تھیں کہ ماں کو ان پر فخر ہوتا ۔اسی ماں کی اتنی اچھی تربیت کے باوجود اور اتنی قابلیت کے بعد بھی ایک لڑکی جاہلانہ انداز سے بزرگ سے بات کرتی دکھائی گئی وجہ تھا اس کا باپ جس کی نفرت اتنی شدید تھی کہ وہ باپ کی عمر کے بزرگ کو بھی حقارت سے دیکھنے لگی ۔
یہ ہے اے آر وائی ڈیجیٹل چینل پر چلنے والا ٹی وی ڈرامہ ۔ لڑکی اور بزرگ بھی اس ڈرامے کا کردار ہیں ۔۔ مگر بات صرف ڈرامے یا کردار کی نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ میڈیا چینلز ہمیں کیا دکھا رہے ہیں ہماری نسل کو کیا ترغیب دے رہے ہیں ۔
بزگوں کا ادب احترام اس سین میں مفقود ہو کر رہ گیا ۔ ایک بزرگ جو عزت دے رہا اپنی بیٹی سمجھ رہا اس کی اتنی توہین کرنا ۔ اس سین میں کہاں بھلائی دکھائی گئی کہاں گئی ماں کی تربیت کہاں گئی تعلیمی قابلیت جو فقط اتنا شعور نہ دے سکی کہ بزرگوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ باپ کے گناہوں کی سزا دوسروں کو دینا سب کو اپنے باپ جیسا سمجھنا اپنے آپ کو صرف اس لیے اس قابل بنانا کہ باپ اور رشتہ داروں کو نیچا دکھا سکیں۔ ہم نوجوان نسل کو کیا سکھا رہے کہ باپ برا ہے تو اسے معاف کرنے کے بجائے اس سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لیں باپ سے اتنی نفرت کریں کہ کوئی بیٹی سمجھے تو اسے حقارت سے پیش آئیں۔ افسوس کے ساتھ مگر یہ سچ ہے ہمارے آج کل کے ٹی وی ڈراموں میں بھلائی کا پہلو اتنا نمایاں نہیں جتنا برائی کا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے رویوں میں شدت آچکی ہے ہمارے ذہنوں کی اسکرین پر چلنے والے ایسے سین ہمیں حقیقی زندگی میں تلخ بنادیتے ہیں ۔ ہمارے معاشرتی رویے صبر و برداشت اور ہر احساس سے عاری ہوتے جارہے ہیں ۔ بچے والدین سے متنفر ہوتے جارہے نہ لحاظ رہا نہ بڑوں کا ادب۔
میڈیا پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایسے ڈرامے دکھائے جائیں جو اچھائی کی ترغیب دیں جس میں بزرگوں کی عزت و احترام کے پہلو کو نمایاںہو۔ بدلہ لینے کے بجائے معاف کردینے کی ترغیب دیں۔ اگر میڈیا نے ڈراموں کا معیار نہ بہتر بنایا تو بہت جلد ہماری نوجوان نسل ان ڈراموں کی دیکھا دیکھی اپنی اخلاقی مذہبی اور ثقافتی اقدار کو فراموش کر بیٹھے گی۔ معیاری ڈراموں کے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہوتے جبکہ غیر معیاری ڈرامے اخلاقی پستی کا ذریعہ بنتے۔