تحریر: عارف رمضان جتوئی پاک و ہند میں ڈراموں اور فلموں نے دن دیہاڑے ایسی ترقی کی کہ جس کو پوری دنیا تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک طرف بالی وڈفلم انڈسڑی نے دنیامیں تہلکا مچایا تودوسری طرف پاکستانی ڈرامہ انڈسڑی کی دھوم سے سب واقف ہیں۔بیرون ممالک اردو یا ہندی کو سمجھنے والے پاکستانی ڈراموں کو نہ صرف شوق سے دیکھتے ہیں بلکہ ڈرامہ اسکریپ اور کرداروں کی بھی خوب تعریف کی جاتی ہے۔پاکستانی ڈراموں کی دھوم نے بھارتی ڈراموں پر بہت گہرے اثرات مراتب کیے ہیں۔وجہ تھی کہ کچھ برس قبل بھارتی ڈراموں کے لمحہ بہ لمحہ ایکشن سے بھرپور ساس بہو کے مقبولیت پاتے ڈراموں کا گراف ایک دم نیچے چلا گیا۔
بھارتی ڈرامہ انڈسڑی کی چیخیں نکل گئیں اور انھیں بھارت میں پاکستان ڈراموں پر پابندی لگانے کا ڈرامہ کرنا پڑا۔بھارتی ڈرامہ انڈسڑی کی دوہائی اپنی جگہ اہم تھی باہم پاکستان ڈراموں میں بھارتی ڈرموں کی جھلک نہ صرف یہاں کے ناظرین کی لیے تشویش ناک اسلام دشمن اور وطن مخالفین کو بھی خوش کرتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان میں ایک سرکاری ٹی وی چینل ہواکرتا تھا اور اسی پر ڈرامے آیا کرتے تھے ۔ان ڈراموں میں مذہب رول اور پاکستانیت اور اسلام کی نظریات کا کچھ حد تک خیال رکھا جاتا تھا۔اور آج بڑھتے چینلز اور ڈراموں کی بھرمار پھر مقبولیت نے اخلاقی قدریں کھونا شروع کردی ہیں۔ ڈرامہ ہمارے معاشرے ایک مثال اور جھلک پیش کر رہا ہوتا ہے۔جہاں وہ ایک گزری کہانی کو کرداروں کے ذریعے نمایاں کررہا ہوتا ہے وہی ہمارے معاشرے کے مستقبل میں بھی اچھا اور برا اثر پیش کر راہا ہوتا ہے۔متعدد بار ایسا دیکھنے میں آتاہے کہ ڈرامہ کی پیروی کرتے ہوئے کوئی خوفناک سانحہ رونما ہوگیاہے۔
ڈرامہ نگاروں اور اسکریپ رائٹرز اور پروڈیوسر،ڈائریکڑ سمیت ہر شخص کی اپنی ایک الگ ذمہ داری بن رہی ہوتی ہے کہ وہ الفاظ سے لے کر کرداروں کے میک اپ تک ہر چیز کو نظریاتی حدود و قیود کالحاظ رکھتے ہوئے ادا کریں ۔ہمارے ڈراموں کے ایک پہلوں امیر خاندان ،مہنگا پہناﺅ ،رہن سہن اور اندازے زندگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
Pakistani Channels
اس وقت ہمارامعاشرا طبقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔سرداردانہ اور جاگیر دارنہ نظام نے ہمارے معاشرے کو نچلے،متوسط اور اونچے طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ تقسم ایسی ہے کہ جس نے پہلے دو طبقوںکے افراد میں احساس محرومیوں کو جہنم دیا ہے۔ یہ احساس محرومی تب اور بڑھنی لگی جب گھروں میں بیٹھے خاندانوں کو ٹی وی ڈراموں کے ذریعے مہنگے مبلوسات ،اعلی پکوان اور طرز زندگی دیکھا پایا گیا۔
یہ وہ احساس محرومی تھا جس نے ایک سادہ نفس انسان کو بہت گہرائی تک چوٹ پہنچائی۔ وہ شخص جوصرف چند ہزار روپیوں میں اپنے گھر میں امادہ اور خوش زندگی بسر کررہا تھا ڈراموں نے قبل از وقت بہت کچھ دیکھا دیا اور پھر دبے لفظوں یا واضح الفظ میں فرمائش سر اٹھانے لگیں۔نچلے طبقے کے افراد نے بھی سرپرست اعلیٰ سے ایسے مطالبات شروع کردیے ہیں جن کو پورا کرنا ان کے بس سے باہر تھا۔
یہاں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی قابل تعریف ہے کہ ایسی بے شمار خواتین اور گھرانے ہیں جو ان ڈراموں سے متاثر ضرور ہوتے ہیں تاہم وہ انہیں اپنی عملی زندگی میں لاگو نہیں کرتیں، اگر کہیں دل میں کوئی خواہش انگڑائی لے بھی لے تو ایسے میں وہ خواتین بازار سے سستے داموں خریداری کر کے مختلف ڈائزائنز اور کٹ پیس اور ٹوٹکوں کے ذریعے اپنی خواہش کو پورا کر لیتی ہیں۔ یہ ایک اچھا اور مثبت پہلو ہے کہ آپ اپنے گھر کے افراد پر بوجھ ڈالنے کی بجائے خود تھوڑی محنت کریں اور گھریلو ٹوٹکوں سے اپنے گھر کو حسن سے چار چاند لگا دیں۔
آج کا پیدا ہوتا یہ احساس محرومی ہر گزرتے کل کے ساتھ ناامیدی اور پھر مایوسی میں بدل رہا ہے۔ صبروشکر کی گزرتی زندگی میں ڈراموں کے غیر حقیقی طرز زندگی اب عدم صبر اور برداشت کا سبب بن رہا ہے۔ ان مایوسیوں کے پیدا ہونے اور معاشرے میں ناشکری کی بدولت ہونے والے جانی، سماجی و معاشرتی نقصان سے بچنے کے لیے ڈراموں پر کام کرنے والے تمام ذمہ داروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔