دنیا بھر میں اتنے زیادہ ممالک انتہائی مقروض ہیں جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔یہ صورت حال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔اس ایک سوبیس ریاستیں قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہیں۔افریقی ممالک کی حالت تو انتہائی بری ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی سطح پر مختلف ممالک کو درپیش قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال سے متعلق یہ تفصیلات قرض رپورٹ سال دو ہزار انیس میں بتائی گئی ہیں۔جو جوبلی جرمنی نامی ادارے نے جرمن دارالحکومت برلن میں پیش کی۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں ماہرین کی طرف سے دنیا کے ١٥٤ممالک کودرپیش مالیاتی مسائل کاجائزہ لیاگیا۔جن میں سے ایک سوبائیس ریاستیں خطرناک حدتک مقروض پائی گئیں۔مزیدتشویش ناک بات یہ ہے کہ سال دوہزارسترہ میںمقروض ممالک کی تعدادایک سوانیس تھی جورواں سال ایک سوبائیس ہوچکی ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیاکاسب سے پسماندہ اورکم ترقی یافتہ سمجھے جانے والے براعظم افریقہ میں توبہت سے ممالک کودرپیش قرضوںکی بحرانی صورت حال اتنی شدیدہوچکی ہے کہ اب ان ممالک نے اپنے اپنے ذمے قرضوں کی واپسی کے لیے پریشان ہونا اورکوششیںکرنابھی چھوڑدیاہے۔جوبلی جرمنی کے ماہرین کے مطابق عالمی سطح پرقرضوں کی یہ صورت حال اتنی ناامیدکردینے والی ہے کہ اس کی وجہ سے ہرجگہ اندھیراہی نظرآتاہے۔
مزیدتشویش کی بات یہ بھی ہے کہ مستقبل قریب میںبھی بہترہوتی نظرنہیں آتی اوریہ رجحان بظاہرجاری رہے گا۔جوبلی جرمنی کی اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق قرضوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پراس پریشان کن صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ضرورت منداورغریب ممالک کومختلف عالمی تنظیموں اورامیرریاستوںکی طرف سے جورقوم قرض کے طورپرفراہم کی جاتی ہیں ۔ان کے لیے شرح سودانتہائی کم رکھی جاتی ہے۔ان قرضوںکوسستے قرضوں کے طورپربیچاجاتاہے۔لیکن اس کانقصان یہ ہے کہ ایسے سستے قرضے لینے والے بہت سے ممالک ایساکرتے ہوئے اپنے ممکنہ وسائل سے بھی زیادہ بڑی چھلانگ لگالیتے ہیں اوریوں ایک ایسے جال میںپھنس جاتے ہیں جس سے نکلناان کے لیے ممکن ہی نہیںہوتا۔جوبلی جرمنی کے ایک مرکزی عہدیدارکلاس شلڈرنے صحافیوںکوبتایا کہ اس وقت عالمی سطح پرمختلف ممالک کی مددکے لیے نہ صرف دیوالیہ پن کے خلاف ایک موء ثرنظام کی ضرورت ہے بلکہ قرض دہندہ اداروں اورامیرریاستوںکوانتہائی مقروض ممالک کونئے قرضے دینے پرپابندی لگاتے ہوئے ان کے ذمے زیادہ ترقرضے معاف بھی کردینے چاہییں۔افریقہ کے علاوہ ایشیامیںمنگولیا،بحرین اورلبنان، جنوبی ایشیامیں بھوٹان اورپاکستان جیسے ممالک کوبھی اس وقت ریاستی قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال کاسامناہے۔
جوان ممالک کی معیشتوں کے لیے بہت صبرآزماثابت ہورہی ہے۔عالمی بینک کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پاکستان کواقتصادی بحالی کے لیے فوری طورپرسٹرکچرل اصلاحات کرناہوں گی۔پاکستان کواقتصادی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے برآمدات میں اضافہ کرناہوگا۔عالمی بنک نے مزیدکہاہے کہ پاکستان میںمقامی کھپت میںمزیدکمی کاامکان ہے۔برآمدات میں اضافے کی توقع ہے۔رواںمالی سال سروسزسیکٹرکی پیداواراورزرعی اورصنعتی شعبہ کی پیداوارمیں بھی کمی کاامکان ہے۔عالمی بینک نے کہا کہ سال دوہزاراکیس میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح چارفیصدہوسکتی ہے۔ آئندہ برس ترسیلات زرمیں اضافے کے باعث کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہوسکتاہے۔پاکستان کوریگولیٹری ماحول بہترکرناہوگا،کاروباری لاگت میںکمی لاناہوگی،آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس اصلاحات کرناہوںگی اورپاکستان کوکاروباری آسانیاں پیداکرنے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ آئندہ سال میں پاکستان کی معاشی صورت حال بگڑے گی۔رواں سال تجارتی خسارہ زیادہ رہنے کی توقع ہے۔پاکستان کومعاشی شرح نموبڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔عالمی بینک نے کہاہے کہ جنوبی ایشیادنیامیں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والاخطہ ہے جہاں رواں سال شرح نموبڑھ کرسات فیصدتک پہنچ جائے گی لیکن پاکستان کی شرح نمو کم ہوکرتین اشاریہ چارفیصدتک چلی جائے گی۔
عالمی بینک نے پاکستان کی بد سے بدترہوتی معیشت پرتشویش کااظہارکیااورکہامانیٹری پالیسی میکرواکنامک عدم استحکام کے مسائل کوحل نہیںکرسکے گی۔مقامی سطح پرمانگ میںکمی ہوگی ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کاکہناہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتاراس سال کم رہے گی۔پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتارمیں کمی کی پشین گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواںسال معاشی شرح نموچھ فیصدہدف کے مقابلے میں تین اشاریہ نوفیصدرہے گی۔ سالانہ رپورٹ کے مطابق پانی کی قلت کے باعث زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔رپورٹ میںکہاگیاکہ گیس کی قیمتوںمیں اضافے اورروپے کی قدرمیں تیزی سے کمی کے باعث مہنگائی بڑھ گئی۔رواں سال کے آخرتک مہنگائی کی رفتارمیں مزیداضافہ متوقع ہے۔رپورٹ کے مطابق آمدنی میں کمی اوراخراجات میں اضافے کے باعث بجٹ خسارے کاہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔پی ٹی آئی کی سوشل میڈیاٹیم سے گفتگوکرتے ہوئے وزیرخزانہ اسدعمرنے کہا ہے کہ پٹرول پرٹیکسزکم کیے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں ڈیزل پر ٹیکس کی شرح ایک سوایک فیصدتھی جب کہ اس وقت ڈیزل پرتمام ٹیکسزصرف ٥٢ فیصدہیں۔اسدعمرکاکہناہے کہ گزشتہ حکومتوںنے ملک کوبحرانوںمیں دھکیل دیا۔رواں مالی سال بجٹ خسارہ ٢٩٠٠ ارب روپے بنتاہے۔ہم بجٹ خسارہ کم کرنے کے اقدامات کررہے ہیں۔بہت سے ماہرین معیشت کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے جلدپیکج لیاجائے لیکن اس میں دیرکرنے سے آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی آئی ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط میںنرمی کوسمجھنے کے لیے اس تحریرکے شروع میں لکھی گئی جوبلی جرمنی کی عالمی معیشت پرمبنی رپورٹ دوبارہ پڑھیں۔وزیرخزانہ کاکہناہے کہ ادائیگیوںمیں توازن کے لیے ہمارے پاس دیوالیہ ہونے یا آئی ایم ایف پروگرام لینے کے دوآپشنزہیں۔وزیرخزانہ نے کہا کہ اگرہم دیوالیہ ہوتے ہیں توپاکستانی روپے کی قدربہت کم ہوجائے گی۔ملک میں سرمایہ کاری بھی متاثرہوگی۔لیکن ہم آئی ایم ایف کے پاس جاکراصلاحات لائیں گے ۔کوشش ہوگی کہ کمزورطبقے پربوجھ نہ آئے ۔حکومتی وسائل وہاں لگائیں گے جہاں روزگار کے مواقع پیداہوں اورسرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو۔نجی سیکٹرمیںکاروباربڑھ رہاہے۔اگرروپے کواوورویلیورکھیں تواس کانقصان عوام کوہوتاہے۔ہم معیشت میں بہتری کے لیے اس کی بنیادی سمت بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کے لیے ڈیجیٹل کی جانب جاناضروری ہے کیوںکہ اب پوری دنیاڈیجیٹل معیشت اپنا رہی ہے۔رواں مالی سال میں شرح ترقی کاہدف چارفیصدہے۔
وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کے افتتاح کے موقع پرمنعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسدعمرنے کہا ہے کہ اقتصادی فریم ورک دستاویزمیں اس بات کااحاطہ کیاگیاہے کہ آئندہ چارپانچ سالوںمیں ہم نے معیشت کوکس طرح آگے لے کر جاناہے۔فی الوقت فریم ورک میں اعدادوشمارنہیں ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ تمام ترتفصیلات طے ہونے کے بعداعدادوشماربھی جاری کیے جائیں گے۔اس دستاویزکے اندرآپ کواعدادوشمارنہیں حکمت عملی دکھائی دے گی۔یہ فریم ورک آئی ایم ایف کے ساتھ شیئرہوچکاہے ۔ترجیحات میں ان کامشورہ بھی شامل ہے ۔ وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمان کوہی اقتصادی اوردیگرفیصلوںکامرکزہوناچاہیے۔اس مقصدکے لیے اس دستاویزکوقومی اسمبلی اورسینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کوبھی ارسال کیاجارہاہے تاکہ ان سے بات چیت اورمشاورت ہواوران کی ان پٹ کے بعداس کوحتمی شکل دی جاسکے۔اسدعمرکاکہناہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ملکی معیشت کے فیصلے آنے والے انتخابات نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کودیکھتے ہوئے کررہی ہے۔ان کاکہناہے کہ پاکستان کی معیشت تین بنیادی مسائل ہیں ۔میڈیامیں یہ سوال پوچھاجاتاہے کہ اس میں عوام کی دل چسپی کی کیاچیزہے۔
عوام کی دل چسپی کی چیزہے روزگار، عوام کی دل چسپی کی چیزہے مہنگائی،عوام کی دل چسپی کی چیزیہ ہے کہ ایک آدمی یہ سمجھے کہ اس کے بچوںکی زندگی اس سے بہترنظرآئے۔وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ اگرہم صرف نیوز سائیکل یاالیکشن سائیکل کے لیے معیشت کے فیصلے کریں گے توپاکستان کاجوپوٹیشنل یاپاکستانیوںکاجوحق ہے ہمیں حاصل نہیںہوگا۔حکومت اتناپیسہ جمع نہیں کرسکتی جوملک کی ترقی اورحکومت کے کاروبارکے لیے درکارہے۔پاکستان کی برآمدات اتنازرمبادلہ کمانے کے لیے ناکافی ہیں جس سے ہم درآمدات کے پیسے نہیں دے سکتے۔ہم اتنی بچت نہیںکرسکتے جس سے سرمایہ کاری کی جاسکے۔ہمیں جن فوری فیصلوں کی ضرورت تھی وہ یہ نہیں تھے جن سے اس سفرکاآغازکروں اور طویل اورپائیدارمعاشی شرح نمووترقی کی جانب جاسکوں۔ہمیں اس وقت آئی سی یومیں جومریض (قومی معیشت ) ملاتھا اس کاآپریشن کرکے اس کی جان بچانی تھی اورکم سے وقت میں اسے نارمل وارڈ کے اندرلے کرآناتھا۔ الحمدللہ وہ فیصلے بھی ہوگئے۔معیشت کے بڑے بڑے ماہرین نے کچھ ڈرانے کے لیے اورکچھ نے نیک نیتی سے کہا کہ وہ فوری آئی ایم ایف کے پاس نہ گئے تونہیںبچ سکتے لیکن قوم اوردنیانے دیکھاکہ ہم نے وہ فیصلے کیے ہیں اس سے بہتری آئی ہے۔
آئی سی یو سے مریض (قومی معیشت ) نکل آیاہے۔اب پاکستان کی معیشت کابحرانی مرحلہ ختم ہوگیاہے۔ابھی استحکام کے مرحلے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہوںگا کہ میرے ہاتھ میںجوزرمبادلہ بچاتھا وہ اتنی تیزی سے نکل رہاتھا کہ مجھے اس کوروکنے کے لیے اپنی مٹھی بہت سختی سے بندکرنی پڑی ۔اب بحران کامرحلہ ختم ہونے کے بعدہم اس پوزیشن میں ہیں کہ آہستہ آہستہ اس مٹھی کوکھولاجائے۔لیکن ابھی بھی ہم اگلاڈیڑھ سال معیشت کے استحکام کے مرحلے سے گزریں گے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت پاکستان کوکارحکومت چلانے کے لیے جوپیسہ چاہیے وہ تودورکی بات ،جوملک کے دفاع کے لیے پیسہ چاہیے وہ تودورکی بات، جو پیسہ ترقیاتی اخراجات کے لیے وہ تودورکی بات،اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم قرضے صرف پرانے قرضے واپس کرنے کے لیے نہیں لے رہے بلکہ ہم سود ادا کرنے کے لیے لے رہے ہیں۔معاشی زبان میں اسے ابتدائی خسارہ کہتے ہیں اورپاکستان کاابتدائی خسارہ منفی ہوچکاہے۔پچھلے سال یہ منفی دواشاریہ دوتھایعنی آٹھ ارب سے زیادہ قرضے صرف سودکی ادائیگی کے لیے ہیں۔یہ خطرناک حدسے بھی آگے چلے گئے ہیں۔وزیرخزانہ کاکہناہے کہ آنے والے دوسالوںمیں پاکستان اقتصادی استحکام کی منزل حاصل کرلے گا۔گزشتہ سال برآمدات ملکی معیشت کی شرح سے آٹھ فیصدتھیں چندسال قبل یہ ساڑھے تیرہ فیصدکی شرح سے تھیں۔ہم ترقی کی بجاے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔اس وقت بنگلہ دیش، بھارت اورترکی برآمدات کی شرح ہم سے زیادہ ہے۔وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ بچتیں نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کوفروغ حاصل نہیںہوسکا۔بھارت اورچین نے تیزی سے اقتصادی ترقی اس لیے کی کہ کیوں کہ وہاں بچتوں کی شرح تیس سے ٤٥ فیصدتھی پاکستان میں گزشتہ سال یہ شرح پندرہ فیصد رہی ۔جب تک ہم ان مسائل کوحل نہیںکریں گے ہم باربارآئی ایم ایف کے پاس جاتے رہیں گے ۔ ٹیکس اصلاحات کے ضمن میں جامع اقدامات کیے جارہے ہیں۔ایف بی آرمیںانتظامیہ اورپالیسی میں فرق ضروری ہے۔ معیشت ترقی کرے گی تواس سے ریونیوبڑھے گا۔وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ ایکس چینج ریٹ ملکی ترقی کاپیمانہ نہیں ہیں ۔ایک زمانہ میں پاکستانی کرنسی کی قدرجاپانی کرنسی سے زیادہ تھی ،لیکن جاپان کی فی کس آمدنی پاکستان سے کہیں زیادہ تھی۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکہتے ہیں کہ سابق ادوارمیںہونے والی لوٹ مارکے باعث پاکستان بدحالی کی تصویرپیش کررہاہے۔
معیشت میں تنزلی کی جووجوہات جوبلی جرمنی کی عالمی معیشت پررپورٹ میں بتائی گئی ہیں اورپاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کی جووجوہات وزیرخزانہ اسدعمرنے بتائی ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کوسمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔پاکستان کی معیشت کی اس صورت حال کی ذمہ داراوروجوہات بھی ہیں۔ وہ یہ کہ پاکستان نے پندرہ سال دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی۔اس جنگ میں پاکستان کے اربوں روپے خرچ ہوئے۔ امریکا نے سپورٹ فنڈز کے عنوان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات دینے کاوعدہ کیا ۔امریکانے سپورٹ فنڈزکی رقم مختلف جوازبناکردینے سے انکار کردیا ۔یہ وہ پیسے ہیںجوپاکستان خرچ کرچکاہے۔ اسی جنگ کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آئی۔ پاکستان کوآئی ایم ایف پروگرام لینے سے پہلے سپورٹ فنڈز کااپناحق وصول کرنے کے لیے عالمی عدالت انصاف میںمقدمہ دائرکرناچاہیے۔معیشت کی اس صورت حال کی وجہ ملک میں سال ہاسال سے جاری بجلی کا بحران بھی ہے۔توانائی کے منصوبوں پربھی کثیرسرمایہ خرچ ہوا ہے۔ معیشت کی زبوں حالی کی وجہ ایسے منصوبے بھی ہیں جن کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔معیشت ترقی کی شاہراہ پرچلاناہے توہمیں سود، کرکٹ اورسگریٹ پرپابندی لگانی ہوگی،بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگاربناناہوگا،زرعی اورصنعتی پیداوارکے اخراجات کم سے کم اورمعیاربہترسے بہتربناناہوگا،دریائوں کے پانی کوسمندرمیں جانے سے بچانے اوربارش کے پانی سے استفادہ کرنے کے لیے ڈیمزبنانے ہوں گے، معیشت سنواروپروگرام کے تحت صدرپاکستان، وزراء ،سیکرٹریزاورممبران اسمبلی کوہرماہ دودن کی تنخواہ قومی خزانے میں جمع کراناہوگی، ارکان پارلیمنٹ کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے ، تنخواہیں اورمراعات بڑھانے پردس سال کے لیے پابندی لگائی جانی چاہیے،توانائی کے منصوبوںکوگیس پرمنتقل کرناہوگا، پٹرول، ڈیزل پر کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے، ریلوے اورٹرانسپورٹ کوبجلی پرمنتقل کرناہوگا،تیل اورگیس کے نئے ذخائردریافت کرناہوں گے،شادیوں کے اخراجات کم سے کم کرنا ہوں گے۔ عمران خان کی حکومت کے پاس معیشت کوترقی کی راہ پرگامزن کرنے کاسنہری موقع ہے۔