سٹاک ہوم میں پاکستانی سفارت خانہ نہ صرف سویڈن بلکہ فن لینڈ، سٹونیا اور لٹونیا کے لیے بھی سفارتی خدمات سر انجام دیتا ہے۔ سویڈن میں پاکستانی سفارت خانہ ایک پرسکون مقام رہا ہے لیکن اب یہی سفارت خانہ اپنے دفتری ماحول کی وجہ سے خبروں میں ہے جس کی وجہ خود سفارت خانہ کے اعلی حکام ہیں۔ معاملات اس قدر سنگین اور پوائنٹ اور نوریٹرن تک چلے گئے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کواس صورت حال کا نوٹس لینا پڑا اور انہوں نے اپنے پولیٹیکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی کو صورت حال کی بہتری کے اسلام آباد سے سٹاک ہوم بھیجا لیکن ان کا آنا بھی بے سود ہوا اور وہ سویڈن کا دورہ کر کے واپس خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کیا قدم اٹھاتے ہیں اور افسران بلا کی حکمت عملی کیا ہو گی۔
سفارت خانہ میں یہ تنازع سفیر پاکستان کامران شاہد اور کمرشل قونصلر عائشہ مخدوم کے مابین ہے۔ شاہد کامران ایک سینیئر سفارت کار ہیں اور یہ ان کی آخری سرکاری ملازمت ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ چند ماہ بعد ریٹائر ہو رہے ہیں۔ وہ ایک سال قبل سویڈن میں سفیر کی حیثیت سے تعینات ہوئے تھے۔ ان کے چند ماہ بعد کمرشل قونصلر عائشہ مخدوم وزارت کامرس کی جانب سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے یہاں تشریف لائیں۔ سفیر پاکستان کامران شاہد سفارت خانہ کے انچارج ہونے کے ناطے کمرشل قونصلر کو بھی دفتری امور میں نظم و ظبط کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں اور جواب دہی کا حق استعمال کرتے ہیں۔
وہ کمرشل قونصلر کی جانب سے سرکاری گاڑی اور ڈرائیور کے استعمال پر بھی نظر رکھنا چاہتے ہیں اور کمرشل قونصلر کی کارکردگی بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب کمرشل قونصلر اپنے آپ کو ان کا ماتحت نہیں سمجھیں کیونکہ ان کا تعلق وزارت خارجہ سے نہیں بلکہ وزارت تجارت سے ہے۔ وہ اپنی کارکردگی کے لیے بھی سفیر پاکستان کو جواب دہ نہیں ہونا چاہتیں۔ ان کے خیال میں جب ان کی وزارت نے ان کے لیے نئی گاڑی کی منظوری دے دی ہے تو سفیر سفیر پاکستان کو اس میں روڑے نہیں اٹکانے چاہیے۔ دراصل یہ اختیارات ان کی لڑائی ہے اور دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
سفیر پاکستان اور کمرشل قونصلر کی چپقلش صرف دفتری امور تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات دیگر امور بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کی تقریب میں کمرشل قونصلر شریک نہ ہو ہوئیں۔ اسی طرح جب وزیر اعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف نے سٹاک ہوم میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اور بزنس سے متعلقہ لوگوں سے ملاقات کی اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ان کی تجاویز اور مسائل سنے تو اس اہم نشت میں سفیر اور کمرشل قونصلر دونوں موجود نہیں تھے۔ کمرشل قونصلر کی ہی شکایت پر وزیر اعظم نے اپنے پولیٹیکل سیکرٹری کو انکوائری آفس مقرر کر کے بیھجا لیکن وہ معاملات کو حل نہ کروا سکے۔ اب شاید وزیر اعظم کو کوئی اور ہی قدم اٹھانا پڑے گا۔
Nawaz Sharif
اگر سویڈن میں پاکستانی سفارت خانہ کے معملات وزیر اعظم کے نوٹس میں آ چکے ہیں تو اب انہیں تمام معاملات کو اچھی طرح سے دیکھنا چاہیے۔ انہیں یہ جائزہ بھی لینا چاہیے کہ تقریبا ایک کروڑ روپے ماہانہ خرچ کرنے والے سفارت خانہ کی کارکردگی کیسی ہے۔ سفیر پاکستان، قونصلر اور کمرشل قونصلر اور کمرشل قونصلر کیوں سٹاک ہوم کے پوش علاقہ میں بہت مہنگے بڑے گھروں میں کرایہ پر رہ رہے ہیں۔ تقاریب میں سادگی اور حب الوطنی کا درس دینے والے قوم کے ان خدام میں سے ہر ایک چالیس ہزار سے اسی ہزار سویڈش کرونا (چھ لاکھ سے تیرہ لاکھ روپے) ماہانہ کرایہ کے بنگلوں میں براجمان ہیں حالانکہ اس سے کہیں کم کرایہ پر رہائشوں میں بھی رہا رہا جا سکتا ہے۔ ایک غریب ملک کا سفیر سویڈن جیسے امیر ملک کے ویزاعظم سے زیادہ کرایہ کے گھر میں رہتا ہے۔
کمرشل قونصلر جن پر پاکستان کے غریب عوام کے ماہانہ تقریبا بیس لاکھ روپے خرچ ہو رہے کیا وہ اتنی خطیر رقم کے عوض ملک کی تجارت میں اضافہ کو فروغ دے رہی ہیں۔ کمرشل قونصلر جنہیں سویڈن کے علاوہ فن لینڈ، سٹونیا، لٹویا، ناروے اور ڈنمارک کے ممالک میں پاکستان کی تجارت کو فروغ دینا تھا، انہوں جب سے سویڈن آئی ہیں کیا کارکردگی دکھائی ہے۔ سفارت خانہ کی کارکردگی کیوں سست ہو گئی کہ یوم یکجہتی کشمیر کے پروگرام میں صرف پانچ لوگ شریک ہوئے۔ معاملات تو اور بھی کئی ہوں گے اور جب وزیر اعظم چھان بین کریں گے تو وہ سامنے آتے جائیں گے۔
ایک اور معاملہ کو نہ صرف سفارت خانہ بلکہ حکومت پالستان کے لیے پریشانی کا باعث ہو رہا ہے اور سویڈن میں ساکھ کو بری طرح متاثر کر رہی ہے وہ ہے سفارت خانہ کے ایک ملازم پرویز مسیح نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سویڈن میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی۔ اس بار ایک اور ملازم گدا حسین اجن جو کہ قونصلر سیکشن میں اہم ذمہ داری پر فائز تھے انہوں نے اپنے بیٹھے کے علاج کے لیے حکومت کی جانب سے اخراجات ادا نہ کرنے اور اس کا تبادلہ واپس پاکستان کرنے کے خلاف ان کے اہل خانہ نے گزشتہ ماہ سویڈن کے کارولنسکا ہاسپیٹل کو ادا کر دیئے جائیں گے۔
آئندہ کے لیے مزید اس طرح کے بڑے اخراجات سے بچنے کے لیے حکومت نے حسین اجن کا اٹلی تبادلہ کیا جہاں سفارتی نمائندوں اور ان کے اہل خانہ کا علاج کم خرچ پر ممکن ہے مگر انہوں نے انکار کر دیا جس پر انہیں واپس پاکستان رپورٹ کرنے کا حکم دیا انہوں نے اسے بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ اس طرح کے واقعات اور معاملات سے بیرون ملک قومی وقار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پہلے ہی پاکستان کا امیج بیرونی دنیا میں زیادہ اچھا نہیں اور ملکی سفارت کی ذمہ داری رکھنے والوں کواس کا احساس کرنا چاہیے۔ اگر ہم اس ملک کے اچھا نہیں کر سکتے تو کم از کم بْرا بھی نہ کریں۔