لاہور (جیوڈیسک) ٹی وی ڈراموں اور ماڈلنگ میں شناخت بنانے کے بعد فلمی سکرین پر اپنے فن کے رنگ بکھیرنے والی سارہ لورین کا شمار ان فنکاراﺅں میں ہوتا ہے جو ہندی سینما پر جلوہ گر ہوئیں۔
بالی وڈ فلم ”مرڈر تھری“ نے انہیں بھارتی فلمی شائقین میں پہچان دی۔ یہ الگ بحث ہے کہ فلم میں قابل اعتراض مناظر نے ان کے دامن کو آلودہ کیا اور پاکستان میں ان پر سوالات اٹھے لیکن وہ اسے فن کا حصہ سمجھتی ہیں اور ان باتوں کو اس لیے معیوب نہیں سمجھتیں کہ وہ بین الاقوامی فلمی منڈی کے معیار کے مطابق اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
وہ اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے سمجھوتہ نہیں کر سکتیں۔ جب وہ پاکستانی فلمی صنعت میں اداکاری کے جوہر دکھائیں گی تو اس کی حدود وقیود کو پھلانگنے کی کوشش بھی نہیں کریںگی۔ پاک بھارت کشیدگی کی آگ نے بالی وڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور بھارتی شدت پسندوں کی نفرت کے انگارے پاکستانی فنکاروں کا مستقبل جلا کر راکھ کر رہے ہیں۔
بھارت میں مودی سرکار کی گود میں پلنے والی انتہاء پسند تنظیمیں پاکستانی آرٹسٹوں کے بالی وڈ میں ہمیشہ کے لئے راستے بند کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے بھارتی فلمی صنعت پر بھی پابندیوں کے نشر چلائے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی فنکار بھارت میں مایوسی کے سیاہ اندھیرے سے گھبرا کر ملکی فلمی صنعت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
سارہ لورین نے بھی بالی ڈو کے تجربات کو لالی وڈمیں آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل وہ ہدایتکار سید فیصل بخاری کی فلم ”سلطنت “میں ایک آئٹم سانگ کے ذریعے سلور سکرین کی زینت بن چکی ہیں۔