وطن عزیز پاکستان کو برطانوی سامراج اور نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہوئے اکہتر سال ہورہے ہیں ،تقریباََسوسالہ انگریز دور حکومت کی ترقی اور ظلم وستم کی ہزار ہا حقیقی کہانیاں لکھی اور سنائی جا چکی ہیں انگریز نے ہندوستان میں اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیئے تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی بنائے رکھی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہا دوسری جنگ عظیم( 1939-1945) کے بعد نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ممکن ہوا جنوبی اشیاء سے انگریز نے جانے سے پہلے ہندو سکھ اکٹھ جوڑ کیا اور مسلمانوں کے خلاف بھر پور طریقے سے وار کیا جس کے نتیجے میں 1947میں آگ و خون کی ندیاں پار کر کے مسلمان آزاد مسلم مملکت پاکستان پہنچے ،دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کا قیام کسی بڑے معجزے سے کم نہ تھا آزادی کا اعلان ہوتے ہی لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کی جو دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی نوجوانوں کو نیزوں ،برچھیوں سے شہید کیا گیا عمر رسیدہ مرد وخواتین کو بُری طرح تشدد کر کے معذور کیا گیا اُس وقت دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچے آج ا کیاسی ،پچاسی سال کی عمر میں ہیں موجودہ نسل کو اگر سوشل میڈیا اور دیگرجدید الیکٹرانک سرگرمیوں سے کچھ فرصت ملے تو وہ اِن بزرگوں سے وطن عزیز کی آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات کی آپ بیتیاں سُن سکتے ہیں۔
ہم سے پہلے دونسلوں نے تحریک پاکستان کے حوالہ سے بہت کچھ لکھا اور سُنایا ہے لیکن آج 2018میں اکہترویں آزادی کی سالگرہ مناتے ہوئے ہمارا نوجوان اپنے آبائواجداد کی قربانیوں کو کافی حد تک بُھلا چکا ہے کیونکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اورلیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جس طرح اقتدار کی رسہ کشی میں حکمرانوں نے دُشنام طرازی کا سلسلہ شروع کیا وہ تھمنے میں نہ آ سکا ، کبھی پاکستانی عوام نے جمہوریت کو بہترین نظام حکومت قرار دیا تو کبھی غیر سیاسی حکمرانوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جس کی وجہ ملک میں معاشی مسائل اور کرپشن کا آہستہ آہستہ ہر شعبہ میں سرائیت کر جانا شامل ہے آج ہم وطن عزیز کی آزادی کی سالگرہ جس انداز سے منارہے ہیں اُسکا نظارہ ہمیں سڑکوں پر نوجوانوں کی جانب سے موٹر سائیکل کاسائلنسر نکال کر ون ویلنگ کرتے، بعض چوراہوں پر چندخواتین کے ساتھ ہلہ گلہ کرتے اور گانوں پر ڈانس کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
بات یہاں ہی نہیں ٹھہرتی بلکہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ اَب چھوٹے شہروں میں بھی ہاتھوں میں پاکستانی پرچم پکڑ کر ایسے ایسے کرتب دیکھائے جاتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کو یہ وطن بغیر کسی قربانی و تگ دو کے حاصل ہوااور ہم وطن کی خاطرقربانیاں دینے والوں کو خراج عقیدت وسلام بھنگڑے ڈال کر دے رہے ہیں ۔۔۔۔ وطن عزیز میں یوم آزادی کے موقع پر منعقد ہونے والے میوزیکل کنسرٹ اور ناچ گانے کی مخلوط تقاریب کر کے نوجوانوں خاص طور پر اُن پروگراموں میں شریک خواتین کو آنے والی نسل کی کس قسم کی تربیت کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں وطن سے محبت کے ملی نغمے اور شکرانے کے ترانے تو سمجھ میں آتے ہیں لیکن آزادی کی سالگرہ پر طوفان بدتمیزی اورواہیات اچھل کود ۔۔۔الیکٹرانک میڈیا پر کسی بھی چینل کا “لوگو ” تو یکم اگست سے پاکستانی پرچم کے رنگ میں ڈھلا نظر آجاتا ہے لیکن زیادہ ترچینلز کی نشریات کسی بھی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشرہ کی عکاسی کرتی نظر نہیں آتیں آئین پاکستان بناتے ہوئے اسلام کے سنہری اُصولوں کو ترجیح دی گئی وطن عزیز کا آئین قرآن وسنت کے مطابق بنایا گیا لیکن ہمارے ادارے اُسے حقیقی معنوں میں یہاں لاگو نہ کرسکے جن کی یہ ذمہ داری تھی یہاں تک کہ قومی زبان اردوآج تک دفتری زبان نہیں بن سکی، 1973کا متفقہ آئین بارہا معطل ہوتا رہا اور وقت کے مطابق اِس میں ترامیم بھی کی جاتی رہیں تمام تر قوانین کے باوجود زمینی حقائق کی رُو سے ہم قیام پاکستان کے مقاصد کوآج بھولے بیٹھے ہیں مختصر یہ کہ وطن عزیز کی بقا وسلامتی کے لیئے محب وطن ،جانثارلوگوں کی جہاں ہزاروں کہانیاں اور مثالیں بھی موجود ہیں وہیں جذبہ اور جنون کے زیر اثر اوکاڑہ کی دھرتی پر وقوع پزیر ہونے والی حقیقی کہانی سینئر جرنلسٹ سابق صدر اوکاڑہ پریس کلب اور اُس وقت کے ضلعی نمائندہ روزنامہ پاکستان ٹائمز شہباز ساجدنے راقم کو سنائی اور بعد ازاں اُس ہیرو سے ملاقات کا بندوبست بھی کر دیا ،یہ کہانی ایک ایسے انسان کی ہے جو پاکستانی پرچم کو اونچا لگانے کے جنون میںاپنے دونوں بازوئوں سے محروم ہو گیا۔
متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان جوبچپن میںمستقبل کے سہانے خواب دیکھا کرتا تھا حال میں ایک سرکاری تعلیمی ادارے کا چپڑاسی بن کر بلند حوصلوں سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت کرتانظر نہیں آتا اور جب ماہ اگست میں وطن عزیز میں جشن آزادی کی تقریبات شروع ہوتی ہیں تواس کے ساتھ ہی اسکی زندگی کا رخ بدلنے کا احساس ،معذور ہونے کے باوجود اسکے حوصلے بلند کر دیتا ہے۔ اوکاڑہ شہر کا ایک سچا واقعہ جو 31سال قبل12 اگست 1987 کی سہ پہر کو اس وقت رونما ہوا جب چٹھی کلاس میں تعلیم حاصل کرنے والا محمد افضل جسکا والد شہر کے مصروف علاقے میں سونا ر کی دوکا ن کا مالک تھا نے راوی روڈ پر واقع اپنے گھر کے سامنے رہنے والے اُس وقت کے وفاقی وزیر میاں محمد زمان (مرحوم)کے ڈرائیور کے بیٹے سے آزادی کی تقریبات کو بہتر طریقے سے منانے کا عزم لیکر پاکستان کے قومی پرچم کو سب سے اونچا لگانے کی شرط لگائی چونکہ ڈرائیور کا گھر اونچا تھا اس لئے اسکے بیٹے کا پرچم بھی اونچا تھا جسے دیکھ کر افضل اپنے گھر سے نیچے آیا اور قریبی شاپ سے پندرہ فٹ لمبی جستی پانی کی پائپ اپنی چھت پر لے گیا جوش جنون سے اس پر قومی پرچم باندھ کر سب سے اونچا لہرا کر پاکستان زندہ باد کے نعرے فضا میں بلند کئے اسی اثناء میں اسکے ننھے ہاتھ جستی پائپ کا بوجھ برداشت نہ کرسکے اور بد قسمتی سے وہ پائپ گھر کر ساتھ گزرنے والی بجلی کی چالو 11KV تار سے چھو گیا ایک زور دار دھماکہ ہوا افضل کو گیارہ ہزاروولٹ کا زبردست جھٹکا لگا اوراسکے کپڑوں کو بھی آناناًفاناً آگ نے لپیٹ لیا۔بس پھر گھر میں موجود اسکے والدین اور بہنوں بھائیوں کی چیخ وپکار ہر طرف سنائی دینے لگی افضل جو کہ بالکل بے ہوش تھا اس کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال اوکاڑہ پہنچایا گیااس وقت سرجن ڈاکٹر مبشرانجم اور اسکے عملے نے فوری طور پر آپریشن کیا مگر افضل کے زخموں کو گنگرین کے پھلنے اور اسکی جان بچانے کیلئے اسکے دونوں بازوئوں کو کاٹ دیا گیا۔
یہ لمحہ بہت رقت آمیز تھا جب ہوش میں آنے کے بعد افضل نے کہا کہ میں نے پاکستان کا جھنڈا اونچا کردیکھایااور میں شرط بھی جیت گیالیکن جب اپنے کٹے ہوئے بازوئوں کو دیکھا تو وہ اُسکا باپ اور دیگر رشتہ دار دھاڑیں مار مارکر رو نے لگے افضل کے پرچم لہرانے کی خبریں اس وقت کے اردو اخبارات میں شائع ہوئیں اورانگریزی اخبار پاکستان ٹائمز میںضلعی نمائندہ شہباز ساجد نے محمد افضل کے جذبہ کو مد نظر رکھ کر خصوصی رپورٹ شائع کی جس پر اوکاڑہ کے ڈپٹی کمشنر محمدکاشف مرتضیٰ اورایم پی اے چوہدری اکرام الحق (مرحوم )نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کو انگریزی اخبار کی کلپ بھیجی جس کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے علاج کیلئے پچاس ہزار روپے کا چیک بذریعہ ایم پی اے اور ڈپٹی کمشنرکو دیا گیااُسکے علاج اور بحالی صحت کے لئے وہ رقم ناکافی تھی محمد افضل کے والد کی جمع پونجی بھی اُسکے علاج پر لگی اور کچھ عرصہ بعد والد بھی قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے پھر جوش وجنون میں قومی پرچم لہرانے والے افضل کی فاقوں کی زندگی کا آغاز ہوا۔
اگرچہ آج اُس کو معذور کوٹہ پر سکول کے چپڑاسی کی نوکری تو مل چکی ہے لیکن اُسکے حوصلے آج بھی بہت بلند ہیں وہ اب بھی جشن آزادی کی تقریبات میں اپنے کٹے دونوں بازوئوں میں قومی پرچم اُٹھا ئے اسی جوش و ولولے سے پاکستان زندہ بادکہتا ہے، مگرافسوس اس بات کا ہے کہ قریبی لوگوں یا اُسکے محکمہ کے افسران واہلکاران نے کبھی اس سے نہیں پوچھا کہ اسکی معذوری کے پیچھے کیا اسباب ہیں ۔محمد افضل افسران کے احکامات کی بجا آوری کو ہنس کر پوراکرتا ہے چاہیئے تو یہ کہ ضلعی حکومت ،محکمہ تعلیم قومی پرچم کو اونچا لہراتے ہوئے اپنے بازوئوں کو قربان کرنے والے اس ہیرو کو اس کی حوصلہ افزائی کیلئے کسی میڈل یا حسن کارکردگی کے اعزاز سے نوازیں یاجشن آزادی کے موقع منعقد کی جانے والی تقاریب میںایک دن کے لئے اسے کرسی پر بٹھا کر اسکی حوصلہ افزائی کر یں توہمارا یہ ہیرواپنی معذوری کو بھول جائے گا۔