پاکستانی تاریخ کا خوش گوار لمحہ فوج اور سیاست دان ایک پیج پر

Senate

Senate

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
آج مورخہ ١٩ دسمبر ٢٠١٧ء پاکستانی تاریخ کا ایک خواشگوار لمحہ ہے۔ سپہ سالار سینیٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے سامنے ملکی سیکورٹی صورتحال، بھارت اور افغانستان سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی امور پر بریفنگ دیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکی نئی پالیسی اور اس کے پاکستان پر اثرات پر بھی روشنی ڈالیں گے۔سینیٹ دفاعی کمیٹی کے چیئرمین جناب مشاہد حسین سید نے کہا کہ میں نے سپہ سالار کو چھ ستمبر کے جی ایچ کیو میں پروگرام کے موقعہ پر سینیٹ میں آنے کی دعوت دی تھی توانہوں نے فرمایا تھا کہ باضابطہ دعوت دیں تو میںضرور سینیٹ میں آئوں گا۔ آج سینیٹ کی ہول کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس ہو رہا ہے۔یہ اجلاس سینیٹ کے چیئر مین جناب میں رضا ربانی کی زیر صدارت ہو رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کی فوج کے سپہ سالار سینیٹ میں پیش ہو کر ملک کے سیاست دانوں کو ملکی سیکورٹی کے حالات پر بریفینگ دیں گے۔

مشاہد حسین سید نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کی اس سے قبل سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ دفاعی کیمٹیوں نے جی ایچ کیو،ایل آو سی اور شمالی وزیرستان کا دورہ کیا تھا۔اس وقت بھی فوج کے اعلیٰ افسران نے سرحدی صورت حال اور سیکورٹی پر ان کمیٹیوں کو بریفنگ دی تھی۔مشاہد حسین نے میڈیا سے کہا کہ سپہ سالار کھلے ذہن کے آدمی ہیں ان کے سینیٹ میں آنے سے سول ملٹری تعلوقات میں بہتری آئے گی۔ صاحبو!ہمارے نزدیک فوج کی طرف سے توسول ملٹری اتحادپہلے سے قائم ہے ۔اس سے قبل سابق سپہ سالارجرنل پرویز کیانی کے دور میں بھی اُس وقت کے آئی ایس آئی کے ڈاریکٹر جنرل نے قومی اسمبلی میں آکر سیاست دانوں کے سامنے کھل کر بیان دیا تھا کی فوج نے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کو ختم کر دیا ہے۔ فوج ملک کے سیاسی معاملات میں دخل نہیں دے گی۔ اس وقت سے فوج کا احتیاط بھرت رہی ہے۔ ہاں کچھ دن پہلے کراچی کی مخصوص حالات میں جہاں ملک دشمنوں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن چل رہا ہے۔ جس سے کراچی کے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

ملک دشمن ایم کیو ایم نے کراچی کو تیس نیس کر دیا تھا۔جہاں سے سرمایاداروں نے اپنا سرمایا باہر منتقل کر دیا۔ جہاں کے پوش علاقوں کے لو گ بیرون ملک منتقل ہو گئے۔ جہاںایم کیو ایم کی شیخ مجیب طرف کی پر تشدد قومیت کی سیاست نے ملک کی سیکورٹی اداروں کو ایکشن پر مجبور کر دیا۔جہاں ایم کیو ایم کے قائد نے پاکستان کے خلاف کھل کر بغاوت کی،پاکستان کو ناسور کہا، بھارت ،امریکا اور دشمنوںکو پاکستان توڑنے کی اپیل کی۔جہاں الطاف حسین کی ملک غداری کے بیانات پر پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس کے خلاف ملک توڑنے پر آئین پاکستان کے دفعہ ٦ کے تحت کاروائی کی قراددایں پیش کی گئی۔ جہاں ملک کے کونے کونے میں اس پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے۔ جہاں ملک کی عدلیہ نے میڈیا میںاس کی تقریر تصویر پر پابندی لگا رکھی ہے۔ تو کیا ملک کی سا لمیت کے لیے کام کرنے والی فوج کے کراچی میں تعینات نمائندوں نے اگر ایم کیو ایم کے توڑ جوڑمیں جو مداخلت کی تو اس پر کسی کو بھی چیں بجیں ہونے کی ضرورت نہیں۔ فوج کے مقامی نمائندوں پر تشدد سیاست ختم کروانے کی کوشش کی۔

اگر مندرجہ بالا واقعات کی روشنی میں نواز شریف الطاف حسین کیخلاف سپریم کورٹ میں کیس درج کرواتے جو ان پر ملک کی طرف سے فرض بھی تھا تو سیکورٹی ادارے بھارت سے فنڈ لینے والی پاکستان دشمن پرتشد قومیت کی بنیاد پر سیاست کرنے والی ایم کیو ایم کے معاملات میں مداخلت نہ کرتی۔ قارئین !آف شور کمپنیوں میں نواز شریف کے خاندان کے نام آنے، پھر نواز شریف کے خودجوڈیشنل کاروائی کے کہنے اور اپوزیشن کی درخواستوں کی بنیاد پر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے کرپشن کے الزام میں تاحیات سیاست سے نا اہل قرار دنے پر نواز شریف اور اس کی پارٹی کے لوگوں کی طرف سے فوج کے خلاف نا زیبااور مسلسل تنقید کا سامنا ہے۔ وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ عدلیہ نے فوج کے کہنے پر نوازشریف کو سزا دی گئی ہے۔ نواز شریف خود فرماچکے ہیں کہ یہ کٹ پتلیوں کا کھیل ہے ۔جو اب نہیں چلنے دیا جائے گا۔ کٹ پتلیاں ملک سے جمہورت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اس سے عوام نے یہ نتیجہ نکالا کہ گزشتہ دور میں فوج کی طرف سے مارشل لا اور عدلیہ کی طرف سے نظریہ ضرورت پر فوجیوں کو ریلیف دینا تصور کیا گیا۔ جبکہ نواز شریف کی تو فوج کے خلاف پہلے بھی نہیں بنتی تھی۔

ڈکٹیٹر مشرف پرویز کے مارشل لا سے پہلے بھی فوج کے ساتھ نواز شریف صاحب تنائو کی پالیسی پر کاربند تھے۔ اس سے قبل پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ پر حملہ بھی کروا چکے تھے۔ نواز شریف کے اتحادی بھی فوج پر تنقید میں پیش پیش ہیں۔فوج کئی بار کہہ چکی ہے کہ اب کبھی بھی ملک میں مارشل نہیں لگائے گی۔ان حالات میں اگر ذرا گہرے طور پر ملک معاملات کو جانچا جائے تواب شاید فوج نے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے ۔ کہ سیاست دانوں سے جو کچھ منوانا ہے وہ ان سے بات چیت کر کے منوالیں۔جیسے اس سے قبل سپہ سالار نے پہلے شمالی وزرستان میں آپریشن شروع کر دیا اور بعد میں ملک کے حکمران اس میں شامل ہو گئے۔سی پیک کے معاملے میں بھی پہلا قافلہ چین سے چلا اور مغربی روٹ پر سفر کرتا ہوا گوادر پہنچا اور تجارتی سامان ان لوڈ کیا۔ پھر وہاں سے چین کے بحری جہاز پر اپنا سامان لاد کر اپنی منزل پر پہنچا۔ سیاستدانوں کے بنائے ہوئے دوسرے دو روٹ وہیں کے وہیں رہ گئے۔ اس تاریخی موقعہ پر سپہ سالار تو موجود تھا مگر ملک کے وزیر اعظم نہیں پہنچ سکا تھا۔کہنے کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں ملٹری اورسیاسی قیادت اپنے ملک کے معاملات کو مل جل کر حل کرتی رہتی ہے۔ صرف پاکستان میں ایک خاص لابی اپنے ناپاک مقاصد کے لیے بیرونی دشمنوں کی آشیر باد سے فوج اور سول قیادت کو آپس میںلڑاتی رہتی ہے۔

سیاستدان آپس کے سیاسی معاملات جب حل نہیں کر پاتے تو یہ لابی خاص کر امریکی لابی ملک میں مارشل لگانے میں پیش پیش رہی ہے۔اس وقت ہم اسی مشاہد حسین سید جس نے سپہ سالار کو سینیٹ میں ملکی سیکورٹی پر بریفنگ کی دعوت دی کا ایک دفعہ تاریخی بیان دیا تھا” کہ اگر پاکستان میں موجود امریکی سفارت خانے کو امریکا میں منتقل کر دیا جائے تو یہ سفارت خانہ امریکا میں بھی مارشل لگوا دے گا” بیان کا مطلب یہ ہے کہ سیاست دانوں کی نا اہلی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مارشل لا لگوانے میں ملک دشمنوں کا بھی کردار رہا ہے جس میں امریکی سفارت کار شامل ہیں۔ قارئین اس وقت ہمارے ملک میں غیر اعلانیہ جنگ جاری ہے۔ جو ہمارے ازلی دشمن بھارت کی ریشہ داوانیوں،ہمارے دوست نما دشمن امریکا اور اسرائیل کی گریٹ گیم کی وجہ سے ہے۔

بھارت نے اعلانیہ پاکستان توڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادارے ایک دوسرے کے معاون بن کر ملک کو دشمنوں سے بچانے کی تدبریں کریں۔ نواز لیگ کے لوگوں کو اس بات کا ادراک کر لینا چاہیے کہ نواز شریف کرپشن کے لزام میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ کی بنیاد پر تاحیات نا اہل ہوا ہے۔ اس کی چلائی ہوئی مہم کی کہ وہ نہیں ہے تو جمہوریت نہیں ہے ،فیل ہو چکی ہے۔ اس کے نا اہل ہونے کے بعد کسی کٹ پتلی نے آئین میں مداخلت نہیں کی ۔ آئین کے مطابق نواز لیگ نے اپنا نیا وزیر اعظم چن لیا جو ملک چلا رہا ہے۔

ملک میں جمہورت چل رہی ہے انشا اللہ چلتی رہے گی۔ اس پارلیمنٹ نے دنیا کا عجیب غریب بل بھی پاس کر لیا اور امین اور صادق نہ رہنے والے نا اہل شخص کو اپنا صدر بھی بنا لیا۔کسی نے مداخلت نہیں کی۔اب نواز لیگ مذید کیا اسے مغل اعظم بنانا چاہتی ہے۔ تو عرض گزارش ہے کہ ان وقت بادشاہتیں ختم ہو گہیں ہیں۔جمہوری طریقے سے سیاست کریں۔ آنے والے الیکشن کی تیاری کریں۔ اور ملک کی فوج اور اعلیٰ عدلیہ پر ناجائز تنقید بند کر دیں۔ ورنہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ یوسف رضا بھی کنٹمٹ آف کورٹ پر نا اہل قرار پا چکے ہیں۔ کہیں نواز لیگ کے لوگ بھی پکٹر میں نہ آ جائیں۔ اس وقت سپہ سالار سیاسی قیادت کو سیکورٹی ،علاقائی،امریکی کردار پر بریفنگ دے رہا ہے۔ جو پاکستان کی حق میں۔ پاکستانی تاریخ کا خوش گوارلمحہ ہے۔ فوج اور سیاست دان ایک پیج پر ہیں۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ