تحریر : محمد عتیق الرحمن ستمبر کی آمدآمد ہے پاکستانی اور بھارتی عوام ستمبر سے پہلے ہی 65ء کی یاد میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔سوشل میڈیا پر ایک بڑی پاکستانیوں کی تعداداگست میں ہی 65ء کی جنگ کے متعلق باتیں کررہی ہے جس کی وجہ بھارت کا جنگی جنون اور علاقے میں اپنا تسلط قائم کرنے کی خواہش جو وہ اپنے ہمسایوں پر مسلط کررہاہے ۔لیکن دوسری طرف بین الاقوامی اخباراور اس کے اپنے کچھ اور کہہ رہے ہیں مثلاََ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک اداریے میں حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر مستقبل قریب یاچند سالوں میں پاک بھارت جنگ ہوتی ہے تو بھارت کو زیادہ نقصان برداشت کرپڑے گا۔اور حال ہی میں بھارتی فوج میں اعلیٰ ترین عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والے ائیرمارشل بھارت کمار نے پچاس سال میں پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے کہ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا یہاں تک کہ پاکستان نے صرف دو دن میں بھارت کے35طیارے تباہ کردیئے تھے۔ائیرمارشل بھارت کمار نے یہ اعتراف اپنی کتاب ’’دی ڈیولزآف دی ہیمالین ایگل،دی فرسٹ انڈو پاک وار‘‘ میں کیا ہے جو یکم ستمبر کو منظر عام پر آئے گی۔یاد رہے کہ اس سال پاک بھارت جنگ کو 50سال مکمل ہونے جارہے ہیں۔
بھارتی اخبا رٹائمز آف انڈیانے اس کتاب کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی وزارت دفاع کے ریکارڈ میں تسلیم کیا گیا کہ1965ء کی جنگ میں بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تاہم یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہوئی۔جنگ کے دوران بھارت کے 460 طیاروں میں سے 59اور پاکستان کے186 میں سے 43طیارے تباہ ہوئے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ 1965ء کی جنگ بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی فضائی جنگ تھی۔بھارتی فضائیہ کو پاک فضائیہ پر عددی لحاظ سے برتری حاصل تھی لیکن پاکستانی طیارے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھارت کے مقابلے میں زیادہ جدید تھے۔ جنگ کے وقت بھارتی فضائیہ کے پاس28لڑاکا اسکوڈرن جبکہ پاکستان کے پاس صرف11اسکواڈرن تھے۔ پاک فضائیہ نے آناََ فاناََ دو دن میں بھارت کے 35طیارے تباہ کردیئے جن میں 6ستمبرکو پٹھان کوٹ اور سات ستمبر کلاء کندا میں بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ بھارت نے اس جنگ کے دوران اپنے28اسکواڈرن میں سے 13اسکواڈرن چینی خطرے کے پیش نظر مشرقی اور وسطی سیکٹر پر تعینات کیے۔کتاب کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ کا بہت زیادہ نقصان ہو ا جسے پاکستان کی فتح سمجھا گیا۔
ٹائمز آف انڈیا نے اس سے پہلے کی ایک رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ مودی حکومت کی طرف سے 1965ء کی جنگ کو ایک عظیم فتح کے طور پر منانے کے فیصلے پر بھارت میں تنقید کی جارہی ہے اورکئی حلقوں میں سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ 1965ء کی جنگ تو ہار جیت کے بغیر ختم ہو ئی تھی تو پھر یہ فتح کا جشن کیوں منایا جا رہا ہے۔ بھارتی وزارت دفاع کی سرکاری جنگی تاریخ بتاتی ہے کہ 1965ء کی جنگ کا خاتمہ بغیر ہار جیت کے ہوا۔ یہ جنگ 22 دن تک جاری رہی اور22ستمبر کو جنگ بندی ہو گئی۔ وزارت دفاع نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مجموعی طور پرفضائی جنگ میں کسی نے بھی فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ واضح پلان کے بغیردونوں اطراف نے آپریشن کیا۔بھارت نے 1965ء کی جنگ کے زخم کا بدلہ لینے کیلئے 1971میں پاکستان کو بھاری نقصان پہنچایا۔ بھارت 1965ء کی جنگ کی گولڈن جوبلی منا رہا ہے جس کی تقریبات 28 اگست سے22 ستمبر تک جاری رہیں گی۔چند دن قبل بھارتی فوج کی جانب سے دئیے گئے اشتہار میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے میدان جنگ میں پاکستانی فوج کے خلاف بزدلی کا مظاہرہ کیا۔
Pakistani Soldiers
صفحہ اول کے ہندی اخبارات میں چھپنے والے ان اشتہارات میں بھارتی فوج نے اپنی فوج کی بزدلی کو خود تسلیم کیا ہے۔بھارتی فوج کے شعبہ اطلاعات عامہ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ مذکورہ اشتہار غلطی سے شائع ہوا ہے تاہم حقیقت میں بھارتی افواج نے میدان جنگ سے فرار اور اپنی شکست کی حقیقی کہانی خود ہی بیان کردی ہے۔1965ء کی جنگ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو پاکستان اور بھارت کی پہلی باضابطہ طور پر جنگ تھی جس میں دنیا کو دونوں ممالک کے متعلق صحیح طور پر معلوم ہوااور دونوں کی طاقت وجرات کا اندازہ ہوا۔اگر اس جنگ کے حالات دیکھتے ہوئے کہاجائے کہ پاکستان کی فتح ہوئی تھی کیونکہ بھارت اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا تو غلط نہ ہوگااور بھارت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔اس جنگ کے بعد گو پاکستان کے حالات قابل تحسین نہیں تھے لیکن دوسری طرف دنیا کو پتہ چلاکہ دنیا میں ایک ایسی قوم بھی بستی ہے جو جنگی سازوسامان کے بغیر بھی جنگ کرنے سے واقف ہے ۔بلاشبہ یہ دنیا کو ششدرکرنے والا اقدام تھا جو چونڈہ کے مقام پر ہوا تھا
فضائی حدود میں جناب ایم ۔ایم ۔عالم نے جو کارنامہ سرانجام دیا تھا وہ آج بھی بھارتی سورماؤ ں کی نیندیں اڑا دیتاہے ۔آج ہم 65ء کے حالات سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہیں اور اپنے اندرونی وبیرونی معاملات کو دلیری وبہادری کے ساتھ دیکھ رہے ہیں ۔اگر بات کی جائے بھارت کے ساتھ تعلقات کی تو شروع دن سے’’ ہمسائے ماں جائے ‘‘کا مقولہ پاک بھارت تعلقات پر پورا نہیں اترتابلکہ کوئی دن ہی شاید جاتا ہوگا جب کسی نہ کسی بات کو لے کر بتنگڑ نہ بنتا ہو۔پاک بھارت تعلقات پورے خطے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔اگر پاک بھارت تعلقات پرامن ہیں تو پورے خطے میں امن رہتا ہے اور دوسرے چھوٹے ممالک چین کا سانس لیتے ہیں۔
اس لئے عالمی طاقتوں کو چاہیئے کہ غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں اور پاک بھارت تعلقات اور دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں اپنا کرداراداکریں ۔اس بار پاکستانی قیادت نے جس طرح کشمیر کا مقدمہ پیش کیاہے یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی حکومت کشمیر کے معاملے کو سب سے مقدم رکھتی ہے ۔حالیہ پاک بھارت تعلقات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہ بھارت کو سمجھانے کے لئے کافی ہیں کہ اب حالات ویسے نہیں رہے اور دنیا پاکستان کو ایک نئی نظر سے دیکھ رہی ہے ۔ بین الاقوامی طور پر پاکستانی اقدامات کو سراہاجارہاہے جو اس بات کی نشان دہی ہیں کہ کل کو اگر کچھ شرارت ہوئی تو بین الاقوامی حالات پاکستان کے حق میں ہوں گے۔