اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی قومی اسمبلی نے ایک بل منظور کیا ہے جس سے کلبھوشن یادیو کو سول عدالت میں اپیل کا حق مل سکے گا۔ پاکستان کی ایک فوجی عدالت جاسوسی اور تخریب کاری کے الزام میں انہیں موت کی سزا سنا چکی ہے۔
بھارت کے مبینہ جاسوس کلبھوشن یادیو کے اہل خانہ اور ان کے دوستوں نے اس پاکستانی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جس کے تحت کلبھوشن کو اپنی سزا کے خلاف سول عدالت میں اپیل کرنے کی اجازت مل جائے گی۔
پاکستانی قومی اسمبلی نے جمعرات کے روز جو بل منظور کیا، اس کے تحت بیرونی ممالک کے شہریوں کو، خاص طور پر جن کے کیس کا تعلق بین الاقوامی فوجداری عدالت سے ہو، انہیں یہ حق دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے خلاف فیصلے پر نظر ثانی کے لیے ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ جیسی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔
اس بل کی روشنی میں کلبھوشن یادیو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے تقاضوں کے مطابق فوجی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر سکیں گے۔ اس کے تحت انہیں ضرورت پڑنے پر قونصلر رسائی بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ تاہم ابھی اس پاکستانی قانونی بل کی ملکی سینیٹ میں منظوری باقی ہے، جس کے بعد یہ بل ملکی صدر کو بھیجا جائے گا اور آئینی طور پر صدارتی دستخطوں کے بعد ہی اس قانون پر عمل درآمد ہو سکے گا۔
پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے مبینہ جاسوسی اور ملک میں تخریبی کارروائیاں کرنے کے الزام میں کلبھوشن یادیو کو موت کی سزا سنادی تھی اور وہ اس وقت بھی جیل میں ہیں۔
اس بل کی منظوری کی خبر آنے کے بعد سے ہی بھارت میں کلبھوشن یادیو کے اہل خانہ اور ان کے دوست کافی خوش ہیں۔ ان کے والد سدھیر یادیو نے جمعے کے روز پاکستانی قومی اسبملی کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی امیدیں اب اور زیادہ ہو گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ”ہم صبح سے ہی خبریں سنتے رہے ہیں۔ ہمیں اس بل سے متعلق نتائج اور خبر کا شدت سے انتظار تھا۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ یہ خدا کی مرضی ہے، ہم پر امید ہیں اور دعا کر رہے ہیں۔‘‘
ان کے ایک دوست اروند سنگھ نے بھارتی میڈيا سے بات چيت میں کہا کہ اسلام آباد کا یہ اقدام ایک طرح سے بھارت کی سفارتی کامیابی بھی ہے۔ اروند سنگھ کا کہنا تھا، ”یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔ یہ ہماری سفارتی جیت ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلے کے بعد عالمی دباؤ کے تحت پاکستان نے یہ بل منظور کیا ہے، جو کلبھوشن یادیو کو ہائی کورٹ میں اپیل کی اجازت دیتا ہے۔ یہ بھارتی عوام کی کامیابی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ اب یہ معاملہ تیزی سے آگے بڑھے گا اور ”ہم بہت جلد ان سے مل سکیں گے۔ حکومت ان کی جلد رہائی کے لیے ہر سطح پر کوششیں کر رہی ہے۔‘‘
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کے ایک حاضر سروس افسر اور بھارتی جاسوس ہیں، جنہیں سن 2016 میں پاکستانی صوبہ بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت کے مطابق ملک میں ہونے والی متعدد تخریبی کارروائیوں میں ان کا ہاتھ تھا اور خود یادیو نے نے ان الزامات کا اعتراف بھی کیا ہے۔
دوسری طرف بھارت ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ کلبھوشن ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں اور وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں ایران گئے تھے اور انہیں پاکستانی ایرانی سرحد پر مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا۔
پاکستان کا تاہم کہنا ہے کہ بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا تھا کہ یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوئے، کیونکہ گرفتاری کے وقت کلبھوشن یادیو کی عمر 47 برس تھی۔ نیز کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو انہوں نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال کیا اور جس میں ان کا نام حسین مبارک پٹیل لکھا ہوا ہے۔
کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی ایک فوجی عدالت کی طرف سے سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے بعد بھارت نے اس فیصلے کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کیا تھا، جس نے کلبھوشن کو قونصلر تک رسائی اور انہیں فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف پاکستانی سول عدالت میں اپیل کی اجازت دیے جانے کا فیصلہ سنایا تھا۔