اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں صحافت سے متعلق تازہ ترین امپیونٹی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ برسوں میں 33 پاکستانی صحافی قتل کر دیے گئے مگر سبھی قاتل سزا سے بچ گئے۔
صحافیوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے سزاؤں سے بچ جانے کے خلاف ورلڈ امپیونٹی ڈے ہر سال دو نومبر کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اس دن کی مناسبت سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کا یہ ملک اور اس کا قانونی نظام صحافیوں کی جانیں بچانے اور اظہار رائے کی آزادی کو آئینی ضمانتوں کے باوجود تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔
2013ء سے لے کر 2019ء تک پاکستان بھر میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کی پاداش میں جن 33 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا، ان میں گزشتہ ایک سال کے دوران مارے جانے والے سات جرنلسٹ بھی شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی ایک بھی صحافی کے قاتلوں کو سزا نہ ملی اور مقتولین کے لواحقین بھی انصاف سے محروم ہی رہے۔
یہ پریشان کن اعداد و شمار ورلڈ امپیونٹی ڈے کے موقع پر پاکستان میں میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی اس تازہ رپورٹ میں بتائے گئے ہیں، جس کا عنوان ہے: قاتلوں کو سو فیصد معافی اور مقتول صحافیوں کو صفر فیصد انصاف۔ اس رپورٹ میں پاکستان امپیونٹی اسکور کارڈ دو ہزار انیس کے نام سے شامل کردہ اعداد وشمار کے مطابق رواں برس مارے جانے والے سات صحافیوں سمیت پاکستان میں دو ہزار تیرہ سے دو ہزار انیس تک مجموعی طور پر جو تینتیس صحافی قتل ہوئے، ان میں سے پولیس نے بتیس کے بارے میں باقاعدہ قانونی رپورٹیں یا ایف آئی آر درج کیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور اس کا قانونی نظام صحافیوں کی جانیں بچانے اور اظہار رائے کی آزادی کو آئینی ضمانتوں کے باوجود تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔
ان بتیس قانونی رپورٹوں کے اندراج کے بعد پولیس صرف بیس مقدمات کے چالان مکمل کر سکی۔ چالانوں کی تکمیل کی یہ شرح ساٹھ فیصد بنتی ہے۔ پھر جن مقدمات پر عدالتی کارروائی مکمل ہوئی، ان چھ میں سے محض ایک مقدمے میں مشتبہ قاتل کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ لیکن یہ مجرم بھی عدالتی اپیل کے مرحلے میں سزا سے بچ نکلا۔ یوں ان تین درجن کے قریب مقتول پاکستانی صحافیوں کے اہل خانہ کو انصاف کی فراہمی کی شرح صفر رہی۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ صحافیوں کے خلاف قتل اور دیگر جرائم کے بعد مجرموں کے سزاؤں سے بچ جانے کی پاکستان میں نظر آنے والے شرح دنیا میں اپنی نوعیت کی بلند ترین ہے۔
اقبال خٹک نے کہا، ”یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جہاں ایک بھی صحافی قتل نہیں ہونا چاہیے تھا، وہاں گزشتہ چھ برسوں میں تینتیس صحافی مارے جا چکے ہیں۔ پھر ان تینتیس میں سے صرف بیس مقدمات عدالتوں تک پہنچے۔ یعنی پولیس چالیس فیصد واقعات میں تو چالان ہی مکمل نہ کر سکی۔ تو جب ایسے مقدمات عدالتوں میں جائیں گے ہی نہیں، تو انصاف کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ المیہ یہ ہے کہ ریاست کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ پاکستان میں کتنے زیادہ صحافیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔‘‘
پاکستان میں ایسے جرائم میں قانونی نظام متاثرین کو انصاف کیوں نہیں دے پاتا، اس بارے میں ماہر قانون آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے دو ہزار بارہ میں آنے والے صحافیوں کے تحفظ کے ایکشن پلان کو صرف ایک سال بعد ہی اپنا لیا تھا لیکن اس ایکشن پلان کے تحت ریاست پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، وہ آج تک پوری نہیں کی گئیں۔
آفتاب عالم نے، جو اظہار رائے اور اطلاعات تک رسائی کے امور پر کام کرنے والی ارادہ نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں، مزید کہا کہ اسے بظاہر ریاست کی ناکامی کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہ تو اپنے شہریوں، خاص کر صحافیوں کی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہی اور نہ ہی ایسے جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزائیں دینے سے متعلق اپنی قانونی ذمے داریاں پورا کر سکی۔
غیر حکومتی تنظیم ارادہ کے سربراہ آفتاب عالم نے مزید کہا کہ پاکستان میں صحافی پچھلے کئی برسوں سے اظہار رائے کا حق استعمال کرنے کی پاداش میں مسلسل ہدف بنائے جا رہے ہیں: ”حکومتیں قانونی اصلاحات کے دعوے کرتی ہیں، نظام انصاف میں کچھ اصلاحات ماضی میں کی بھی گئی ہیں، لیکن صحافیوں کو انصاف کی فراہمی سے متعلق فرائض میں کوتاہی پھر بھی کی جاتی ہے۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ صحافیوں کو عمومی مسائل کا سامنا تو دنیا بھر میں ہے، تاہم پاکستان میں صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آزادی رائے کو درپیش خطرات کے ساتھ ساتھ میڈیا کارکنوں کو جان و مال دونوں کا خطرہ بھی ہے اور بے روزگاری کے مسائل بھی شدید ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان تینتیس مقتول صحافیوں سمیت حکومت سینکڑوں دیگر متاثرین کی آواز سننے کو بھی تیار نہیں ہے: ”فرنٹ لائن صحافی خبروں اور حقائق کو سامنے لاتے ہیں، جو اس لیے خطرناک کام ہے کہ پاکستان میں ایسے پیشہ ورانہ کام کے باعث صحافیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔‘‘
2013ء سے لے کر 2019ء تک پاکستان بھر میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کی پاداش میں جن 33 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں موجودہ حالات میں ریاست اور سول سوسائٹی کے مابین مکالمے کی اشد ضرورت ہے اور حکمران حلقوں کو یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ کوئی ریاست اس وقت تک مستحکم ہو ہی نہیں سکتی، جب تک وہاں اظہار رائے کی آزادی نہ ہو۔ حارث خلیق کے مطابق صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ایسے پریشر گروپ بنائیں جو ان کے مسائل کو بہتر طور پر سامنے لا سکیں اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو بھی خود کو دھڑے بندی سے نکال کر مزید مضبوط اور متحد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحافیوں کے بنیادی حقوق کے لیے مؤثر تر جدوجہد کر سکے۔
فریڈم نیٹ ورک کی اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مختلف ٹی وی چینلز، آن لائن میڈیا اداروں اور ریڈیو اسٹیشنوں کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا سب سے بڑا ٹارگٹ ہے۔ تینتیس مقتول صحافیوں میں سے انیس کا تعلق پرنٹ میڈیا سے تھا۔ اسی طرح علاقائی سطح پر گزشتہ چھ برسوں کے دوران سب سے زیادہ صحافی صوبہ خیبرپختونخوا میں قتل ہوئے، جن کی تعداد گیارہ تھی۔
اس امپیونٹی رپورٹ میں پاکستان میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام، ان کے تحفظ اور مجرموں کو سزائیں دلوانے کے لیے کئی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ ان میں صحافیوں کی حفاظت کے لیے خصوصی وفاقی اور صوبائی قوانین کا نفاذ، صحافیوں کی حفاظت سے متعلق خصوصی وفاقی اور صوبائی پراسیکیوٹرز کی تقرری اور میڈیا اداروں کے سالانہ سکیورٹی آڈٹ جیسی تجاویز بھی شامل ہیں۔