کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں خودمختار کشمیر کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین تصادم کے بعد بے چینی بڑھی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق بھارتی فیصلے سے خودمختاری کی تحریک نے زور پکڑا ہے۔
سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس پھینکنے اور لاٹھی چارج کے مناظر بھارت کے زیر انتظام کشمیر، بالخصوص سری نگر میں دکھائی دینا تو معمول کی بات ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دیگر نوعیت کے مسائل تو رہے لیکن مظاہرین اور سکیورٹی فورسز میں تصادم کے ایسے مناظر ماضی میں شاذ و نادر ہی دکھائی دیے ہیں۔ اب صورت حال تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
اگست میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بھارتی فیصلے کے بعد سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں، جسے پاکستان میں آزاد کشمیر کہا جاتا ہے، حالیہ عرصے کے دوران بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ منگل 22 اکتوبر کو مظفر آباد میں مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم ہوا۔
اس مظاہرے کا اہتمام خود مختار کشمیر کا مطالبہ کرنے والے ایک گروپ پیپلز نیشنل الائنس (پی این اے) نے کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق جھڑپوں اور تصادم کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب پولیس نے مبینہ طور پر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران سو سے زائد افراد زخمی ہوئے اور پولیس نے مظاہرے میں شامل درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا۔
اس مظاہرے میں شریک افراد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی قرار دینے اور گلگلت بلتستان کے علاقے کا کشمیر کے ساتھ الحاق کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
رواں ماہ کے آغاز میں بھی خودمختار کشمیر کے لیے سرگرم جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے ‘فریڈم مارچ‘ کا انعقاد کر کے لائن آف کنٹرول عبور کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس مارچ میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی تھی۔
کئی تجزیہ کاروں کی رائے میں اگست میں بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک غیر متوقع تحریک کے آغاز کا سبب بھی بن گیا ہے۔
کشمیر سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے @Sail4Kashmir نامی مہم شروع کرنے والے عدیل خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”کشمیر کی بھارت اور پاکستان سے آزادی کی حمایت کرنے والے ترقی پسند گروہ متحد ہو رہے ہیں۔ پی این اے ایسا ہی ایک اتحاد ہے جس نے آزاد کشمیر کی انتظامیہ کے سامنے اپنے مطالبے رکھے ہیں۔‘‘
عدیل خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے آزادانہ معاشی اور خارجہ پالیسی کے حامی ہیں لیکن ایسے مطالبے اسلام آباد کے لیے قابل قبول نہیں۔ خان کے مطابق، ”پی این اے کے مطالبے نئے نہیں۔ مظاہرین آزاد کشمیر میں اداروں کے سربراہوں کی تبدیلی اور ایسے نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں خودمختار کشمیر کی حامی جماعتی بھی حصہ لے سکیں۔‘‘
یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔
خود مختار کشمیر کے لیے لابی کرنے والے اسٹاک ہوم میں قائم ‘نارڈک کشمیر آرگنائزیشن‘ کے ڈائریکٹر طلعت بھٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بھارتی اعلان کے بعد سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قوم پرست اور ترقی پسند گروہوں نے ‘پیپل نیشنل الائنس‘ تشکیل دیا۔
بھٹ کا کہنا تھا، ”پی این اے کے کارکنوں کے پر امن مظاہرین پر پولیس حملہ آور ہوئی۔ انتظامیہ کو اندیشہ تھا کہ اس دھرنے میں مزید افراد شریک ہو جائیں گے اور دھرنے کو بین الاقوامی توجہ حاصل ہو جائے گی۔ تشدد سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان کا زیر انتظام کشمیر بھی آزاد نہیں ہے۔‘‘
کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں ایسے واقعات سے بھارت کو اپنے زیر انتظام کشمیر سے عالمی توجہ ہٹانے میں مدد حاصل ہو سکتی ہے۔