کسی بھی ملک میں امن و امان کی بحالی اور مختلف علاقوں میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کرنا کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ بلوچستان میں شدید سیاسی اضطراب، اختلافات اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کے پس منظر میں سرداری نظام کی خرابیوں کے علاوہ عوام کی طویل اور گہری مایوسی و محرومی کو بھی عمل دخل ہے۔ حیرت ہے جو سیاستدان دعوے کرتے ہوئے اقتدار میں آتے ہیں وہ ایوان ہائے اقتدار میں پہنچتے ہی ان پر عملدرآمد کرنا بھول جاتے ہیں۔
سبی اور اسلام آباد میں ہونے والے بم دھماکوں میں 50 کے لگ بھگ معصوم شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں آزادی کی تحریک چلانے والی یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم وزارت داخلہ کے ترجمان نے اسلام آباد دھماکہ کے حوالے سے یو بی اے کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ اسلام آباد میں وزارت کے ترجمان نے بتایا ہے کہ اصل حقیقت حال تو تحقیقات مکمل ہونے پر معلوم ہو سکے گی لیکن ہمارے پاس جو ابتدائی معلومات موجود ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دھماکہ یو بی اے UBA نے نہیں کیا۔ انہوں نے محض ذمہ داری قبول کرنے کی کوشش کی ہے ۔ البتہ وزارت داخلہ نے سبی میں جعفر ایکسپریس پر منگل کو ہونے والے حملے کے حوالے سے یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے دعوے کو مسترد نہیں کیا ہے۔ اگرچہ مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ وزارت داخلہ کے ترجمان کو اس دعویٰ کو مسترد کرنے کی جلدی کیا تھی۔ کیونکہ ابھی اسلام آباد کی سبزی منڈی میں ہونے والے دھماکہ کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی ہے۔
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ان تازہ حملوں کی مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے شہریوں پر حملوں کو حرام قرار دیا ہے ۔ حیرت ہے کہ 50 سے 70 ہزار معصوم لوگوں کا خون کرنے والی تنظیم کا ترجمان بالآخر شہریوں پر حملوں کو حرام قرار دے کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا چاہ رہا ہے ۔ طالبان کے ترجمان نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ یہ حملے ایسی خفیہ طاقتیں کروا رہی ہیں جو پاکستانی عوام کی اسلام سے محبت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور جو اس ملک میں امن قائم ہونے کے خلاف ہیں۔
Chaudhry Nisar Ali
اس قسم کی باتیں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی کرتے ہیں۔ عوام پر ہونے والے حملوں کا الزام وہ خفیہ ہاتھوں پر عائد کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں۔ صدر مملکت ، وزیراعظم اور دیگر تمام اعلیٰ حکام اور سیاستدانوں کی طرف سے مذمت کے بیانات کے باوجود ان خفیہ ہاتھوں کا سراغ نہیں لگایا جاتا۔ چوہدری نثار علی خان پہلے وزیر داخلہ نہیں ہیں جو عوام کے خلاف ہونے والے جرائم کا الزام خفیہ ہاتھوں پر عائد کرتے ہیں۔ اس سے قبل ان کے پیش رو رحمان ملک دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد اسی قسم کا بیان نہایت ڈھٹائی سے جاری کرتے تھے۔
حیرت انگیز طور پر ملک میں نئے جمہوری دور کی دوسری حکومت برسر اقتدار ہے ۔ گزشتہ 5 برس پیپلز پارٹی اور ان کے حامی ملک پر حکومت کرتے رہے ہیں جبکہ گزشتہ برس جون سے میاں نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہے ۔ یہ دونوں حکومتیں اور ان کے لیڈر بلند و بانگ دعوے کرنے کے باوجود بلوچستان میں امن بحال کرنے اور اعتماد سازی کے لئے اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اگرچہ اپنی پارٹی کے امیدوار کی بجائے ایک چھوٹے بلوچ گروپ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو صوبے کا وزیراعلیٰ منتخب کروایا ہے لیکن اس کے علاوہ صوبے میں مستقبل بنیادوں پر سیاسی افہام و تفہیم کے لئے کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی ہے۔موجودہ حکومت نے دہشت گردی پر کنٹرول کے لئے طالبان سے مذاکرات کو متبادل اور مؤثر حل کے طور پر پیش کیا تھا۔ گزشتہ دو اڑھائی ماہ میں متعدد کوششوں کے باوجود یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ پا رہی۔ اب یہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ قبائلی علاقوں میں طالبان کے دو گروہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور آخری اطلاعات آنے تک اس جنگ میں دو درجن کے قریب لوگ مارے گئے تھے ۔ اس صورتحال میں بجا طور پر یہ استفسار کیا جا سکتا ہے کہ آخر حکومت کن لوگوں سے مذاکرات کر رہی ہے ۔ اور آخر اس دلیل کو کب تک قبول کیا جاتا رہے گا کہ مذاکرات دشمن عناصر دہشت گردی کے ذریعے مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے قبل امریکہ کے ڈرون حملوں کو مصالحاتی کوششوں کی ناکامی کی وجہ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت کو خود ہی معلوم نہیں ہے کہ ملک میں بدامنی ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کیا وجوہات ہیں اور نہ ہی اس کے پاس مسائل کا کوئی صائب حل موجود ہے۔
اس صورت میں حکومت طالبان کے کون سے گروپ سے مذاکرات کر کے ان کے قیدی رہا کرنے پر آمادہ ہو رہی ہے۔ اگر اس اقدام سے ملک میں امن بحال نہیں ہو سکتا تو کیا مجرموں کے گروہوں کو رہا کرنے سے دہشت گردی میں مزید اضافہ کے امکانات پیدا نہیں ہوں گے ؟ حکومت اپنی بے بسی کو چھپانے کے لئے غیر ضروری شبہات اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ ایک طرف سرکاری حلقوں کی جانب سے فوج کے خلاف الزام تراشی کے ذریعے فوج کو ناراض کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف تحفظ پاکستان آرڈیننس کو آمرانہ طریقے سے قومی اسمبلی سے منظور کر وا کے پوری اپوزیشن کو احتجاج کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
حکومت کی یہ پالیسی مسلسل خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ حالانکہ انہیں سب سے پہلے ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی کو ختم کرنا چاہئے۔ ان سطور میں پہلے بھی یہ کہا جا چکا ہے کہ ملک میں بحالء امن کے لئے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کا ایک آواز ہونا بے حد ضروری ہے۔