ٹولہ اور اڑن کھٹولہ

Justice

Justice

تحریر : شاہ بانو میر
اللہ رب العزت الفتح کی آیت 14 میں فرماتا ہے کہ اور اللہ ہی کیلیۓ ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین میں ٬ وہ جِسے چاہے بخشے جسے چاہے سزا دے٬ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

سورت محمد آیت نمبر 46

“” اور دنیا کی زندگی محض کھیل تماشہ ہے””

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انصاف کی اصل روح کو انصاف کے باریک تقاضے چکائے بغیر آج انصاف کے بڑے بڑے ادارے جس عجلت اور بے سروپا انداز میں حساس نوعیت کے کیسسز میں فیصلے مرحمت فرما رہے ہیں وہ ملک کو براہ راست داخلی انتشار کی طرف لے جا رہے ہیں٬ ان منصفین کی بے ڈھنگ انداز کی سماعت اور پھر غیر متفقہ انداز میں مختلف فیصلوں سے بادی النظر میں یوں دکھائی دیتا ہے ٬ جیسے کسی دوسرے سیارے سے آئے ہوئے اڑن کھٹولے کے کسی طاقتور ٹولے کے زیر اثر ہیں۔

وہ آتے ہیں اور یکایک بڑے فیصلے سے جو سراسر زمینی حقائق سے متصادم ہوتا ہے اسے صادر کرواتے ہیں اور واپس اپنی دنیا میں روپوش ہو جاتے ہیں۔٬

ان کا کوئی نشان نہیں ملتا کہ یہ فیصلے جو وطن عزیز کی سلامتی کیلئے سراسر نقصان دہ اور کشیدگی کا موجب ہیں آخر ان کو مصلحت کی باوقار قبا پہنا کر ملتوی یا تاخیر میں کیوں نہیں ڈالا گیا٬ ان کو اس وقت کسی ایک سیاسی جماعت کو گرانے یا ختم کرنے یا کمزور کرنے کیلیۓ فوری طور پے لاگو کرنا کیوں ضروری تھا۔

حساس مسائل سے دوچار اس ملک کیلئے چھو منتر جیسے غیر متوازن فیصلے ملک کو پھر سے یتیم و یسیر بنا دیتے ہیں۔

اڑن کھٹولہ سے آیا ٹولہ نادیدہ قوت کی طرح نجانے کیا غیرمرئی طلسمی جال پھینکتا ہے اور ادارے مسمریزم کی کیفیت دوچار ہو کر ساکن ہو جاتے ہیں۔٬

دیکھتے ہی دیکھتے سارا نظام مفلوج اور پھر ملک اور عوام کے معمولات زندگی درہم برہم کر دیے جاتے ہیں۔ ٬

ہر بار طاقت پکڑتا یہ ملک بلندی سے اس قدر تیزی سے گرایا جاتا ہے کہ دشمنان وطن تالیاں پیٹتے ہیں کہ یہ خود آپ ہی کافی ہیں اپنی دشمنی کیلئے٬ عظیم تر ہم بنا رہے ہیں یکلخت روک دیا جاتا ہے اوراے پھر سے لاوارث کردیا جاتا ہے۔

سیاست کا کھیل نئے انداز سے شروع کیا جاتا ہے٬ ہر بار کی طرح پھر سے چور چور کی صدا فضاؤں میں گونجتی ہے اور ہر بار کی طرح اس ایک مخصوص چہرے کو ہٹا کر پھر نئے چہرے سامنے آکر پرانا سیاسی تماشہ شروع کر دیتے ہیں۔

اس سارے کھیل میں مرتی سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے سیاستدان ایک طرف اور دوسری جانب اپنے تخت کو بچاتے ہوئے چیختے چِلاتے لوگ جو صرف اپنی ذات کی برتری کیلئے 21 کروڑ لوگوں کو ان کی خواہشات کو پیروں تلے روندتے ہوئے کرسی کیلئے سیاسی تماشہ لگا دیتے ہیں۔

اس ملک کیلئے کیا کوئی مخلص ہے؟ کیا آج ایک شخص کو”” نااہل”” کر کے باقی سب”” اہل لوگ”” ہمارے سیاسی افق پر ہیں۔

اس سیاست کے میدان میں کون کھرا ہے کون کھوٹا ؟

اس کھیل میں نقصان ہی نقصان ہے کھیل کا آغاز ایک بار پھر انتہائی خوفناک انداز سے منظر عام پر آیا ہے شور چور کا تھا۔

اب کسی کو ڈھیل دی گئی یا تاخیری حربے استعمال کر کے اسے مہلت دی گئی تو اس ملک کا سادہ لوح دیہاتی فطری قہر کے ساتھ سڑکوں پے آتا دکھائی دے رہا ہے۔

پُرانا نظام بدلنے کے لئے ایک کے بعد دوسرے وزیر اعظم کو اتار باہر کرنے والے غلام جمہوریت کو تبدیلی اور نیا پاکستان کہتے ہیں۔

درحقیقت نظام کی اصل تبدیلی انصاف کے شعبہ میں دکھائی دینی چاہیے تا کہ مستحکم انداز میں فیصلے کبھی متنازعہ نہ سمجھے جا سکیں٬ دونوں فریقین کو مضبوط نظام پر یقین کرنا پڑے٬ابھی تک جس کے حق میں فیصلہ تو نظام انصاف درست اور جس کے خلاف ہو تو اس کیلئے یہ نظام محض مذاق ؟اعتراض جبھی پیدا ہوتے ہیں جب نظام میں سقم ہو ٬ ہر اہم شخصیت اور اس پر مسلط کیا گیا فیصلہ تاریخ سے ثابت ہے کہ عدالتی محکومیت اور اس پر موجود دباؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔

نیا پاکستان مضبوط عدالتی نظام سے بنے گا٬ اور اس پر چھایا ہوا وہ نادیدہ اڑن کھٹولہ جو گھڑی بھر میں کرشماتی انداز میں وقوع پزیر ہوتا ہے وہ کامیاب ہو کر ملک کے سکون کو ادھیڑ کر روپوش ہو جاتا ہے٬ ٬ نیا پاکستان بنانا ہے تو ہر بار اس آنے والے اڑن کھٹولے کے ٹولے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ ختم کرنا ہوگا٬ اداروں کی مضبوطی لمحہ وار انداز سے طاقت پکڑے اور آزادانہ فیصلے دے کر انصاف کا معیار قائم کرے۔

ورنہ “” نیا پاکستان”” ایک ڈھکوسلہ اور غلط فہمی ہوگا۔

اس اڑن کھٹولے کے ٹولے کے قائم رہنے تک نہ نیا پاکستان بنے گا اور نیا نظام لاگو ہوگا۔

ترقی کا سفر تھم جاتا ہے اور پاکستان پھر”” لڈو کے”” 99″” پرموجود سانپ سے ٹکرا کر سیڑہی سے “” “” پر آجاتا ہے۔

اڑن کھٹولے سے اترا ہوا نامعلوم نادیدہ ٹولہ کب تک طاقت اور توانائی کے ساتھ غلام گردشوں میں”” پریشاں حال غلام سیاست”” پر حملہ آور ہوتا رہے گا۔

یہ کب تک اس عوام کے خوابوں کو خواب ہی رہنے دے گا؟؟ کب تک یہ طاقتور ٹولہ حملہ آور ہو کر اس ملک اور اس کی عوام کو ترقی کی شاہراہ سے گھسیٹ کر پاتال میں پھینکتا رہے گا؟ہر بار چہرے فرق اور انداز وہی مخصوص وہی پُرانا جو عوام کو پھر سے پتھروں کے دور میں بھیج دیتا ہے۔

اللہ کی بادشاہی کو بھول کر انسانوں کی بادشاہی کو لانے اورچھین لینے والے آخر کب سمجھیں گے کہ اس ملک کے اکیس کروڑ جسم محسوس کرتے ہیں سوچتے ہیں۔

انہیں جینے دو خوشحالی آنے دو اور انہیں باعزت روزگار اور باعزت زندگی گزارنے دو٬ دنیا کھیل تماشہ ہے ٬ بین القوامی قوتوں کی ایماء پر ہر بار یہ ٹولہ اس کھیل کو کچھ سال بعد دہرا کر قوم کو بتاتے ہیں کہ جسم تعداد میں کتنے ہی کیوں نہ ہوں کوئی وزن نہیں رکھتے ٬ یہ کل بھی ذہین دماغ کی ذھانت کے غلام تھے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

جب بھی ترقی کا پہیہ چلنے لگتا ہے تو یہ دماغ ٹولے کی صورت متحرک ہو کر ان ان کروڑوں جسموں کو سیاسی یتیم بنا کر بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیتا ہے جیسے اللہ کے عذاب سے قوم بنی اسرائیل عذاب کی وجہ سے”” وادی تیہ”” 40 سال تک وادی میں بھٹکتی رہی٬گزشتہ 70 سال سے اس قوم کے بھٹکنے کا””وادی تیہ”” کا سفر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا٬یہ مسلط کردہ سزا ختم ہو سکتی ہے اگر ان چند دماغوں کو نکال باہر کی جائے ٬اب قوم کو ضرورت ہے خود جاگنے کی اور سچ کو پہچان کر ان عناصر کو جہنم واصل کرنے کی جو کسی دوسرے سیارے سے نہیں اسی سرزمین سے نمودار ہو کر ان کے احساسات کو روند کر سیاست کی تباہ کُن گریٹ گیم کھیل کر ہمیشہ خود جیتتے ہیں ٬ اور ہارتی عوام ہے۔

اس مٹھی بھر ٹولے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے تا کہ بار بار یہ پُتلی تماشہ نہ کھیل سکے ٬پاکستانی غیور قوم کی صورت بے شمار تکالیف سے گزر کر اب کندن بن کر اب خود اپنی ذمہ دار بنے٬اس اڑن کھٹولے سے اترنے والا ہر بار کا یہ ٹولہ قوم اٹھا کر متحد ہو کر اسے اسی اڑن کھٹولے میں بٹھا کر ہاتھ پیر باندھ کر خلا کی ایسی وسعتوں میں گُم کر دے کہ جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہو جائے ٬ ورنہ بد بختی قوم کا مقدر بن جائے گی ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ٬آج پھر سے وہی 70 سال سے جاری مناظر وہی مستقبل کا خوف ٬ مایوسی وہی لاچارگی٬ اور حسرت٬ نگاہوں میں ہر عام پاکستانی کی نگاہوں میں ہویدا ہے۔

آنکھوں اور پژمردہ جسموں کے ساتھ تنزلی کے ویراں بیاباں صحراؤں بے آب و گیاں میدانوں میں خوشحال زندگی تلاش میں سرگرداں یہ مظلوم بے بس لاچار عوام آخر کب تک اس اڑن کھٹولے کے ٹولے کے سفاکانہ وار سہتی رہے گی۔ کب تک؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر