تحریر: سید توقیر زیدی بھارتی وزیراعظم نریندمودی نے پاکستان کیخلاف اپنے جنگی جنون کو بڑھاتے ہوئے نئی بڑ ماری ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے’ ہم سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرکے اپنے پانی کا استعمال بڑھا دینگے۔ انہوں نے گزشتہ روز سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارتی آبی ماہرین کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس معاہدے کو ختم کرنے کے معاملہ کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیا جس پر آبی ماہرین کی جانب سے انہیں باور کرایا گیا کہ اس معاہدے کو یکسر ختم کرنے سے بھارت کا نقصان ہوگا کیونکہ یہ معاہدہ ختم ہونے کے بعد چین دریائے سندھ کا رخ موڑ سکتا ہے جس سے بھارت اس دریا کے 36 فیصد بہائو سے محروم ہو جائیگا۔ اجلاس میں سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کیلئے قانونی مشاورت کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اجلاس میں تین دریائوں پر پن بجلی منصوبے تیز کرنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ دوسری جانب بھارتی سپریم کورٹ نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرانے کیلئے دائر ایک درخواست کی فوری سماعت سے گزشتہ روز معذرت کرلی ہے۔
پاکستان کی سالمیت کیخلاف مودی سرکار کی اس جنونیت پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کی بھارتی شخصیات کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آرہا ہے۔ بھارتی آبی ماہرین نے باور کرایا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ختم کرکے مودی حکومت عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو گی جبکہ سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ کنول سبل نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر غیرذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ عالمی معاہدہ ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے گزشتہ روز یواین جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کا اعادہ کیا اور کہا کہ پاکستان کشمیر کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔
بھارت کی حکمران بی جے پی نے گزشتہ تین ماہ سے بھارتی افواج کے ذریعہ کشمیری عوام کا عرصہ? حیات تنگ کرتے ہوئے جس ہذیانی کیفیت میں پاکستان کیخلاف محاذ گرم کیا ہے اور خود بھارتی وزیراعظم پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں اسکے پیش نظر اب بھارت کی پاکستان کے ساتھ ”امن کی آشا” میں چھپی ہوئی عیاری و مکاری اقوام عالم کے سامنے مکمل بے نقاب ہوچکی ہے اور یہ حقیقت بھی واضح ہو چکی ہے کہ تقسیم ہند کے وقت ہندو لیڈر شپ نے کشمیر کا اسی نیت کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا تھا کہ کشمیر سے پاکستان آنیوالے دریائوں پر کنٹرول کرکے وہ پاکستان کو بے آب و گیاہ ریگستان میں تبدیل کردینگے اور اس طرح اسے بھوکا پیاسا مار کر اسکی سالمیت ختم کرنے کی سازش کی تکمیل کرلیں گے۔ اگرچہ متعصب ہندو ذہنیت کو بانی? پاکستان قائداعظم کی فہم و بصیرت سے تشکیل و استوار ہوتے پاکستان میں اپنی اس زہریلی سازش کو کامیاب بنانے کا موقع نہیں مل سکا تاہم کشمیر کو متنازعہ بنا کر ہندو لیڈر شپ نے پاکستان کے ساتھ مستقل کشیدگی اور اسکی سالمیت کیخلاف اپنی سازشیں جاری رکھنے کی راہ ضرور نکال لی۔
India Pakistan War
آج انہی سازشوں کے تابع بی جے پی کی مودی سرکار پاکستان کی سالمیت پر شب خون مارنے کی جلدی میں نظر آتی ہے جبکہ مودی کی شرانگیزی اور بڑھکوں سے علاقائی ہی نہیں’ عالمی امن و سلامتی کو بھی سخت خطرہ لاحق ہوچکا ہے اور عالمی حلقے بجا طور پر اس تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ مودی کی بڑھکوں سے پاکستان بھارت جنگ کی نوبت آئی تو ان دونوں ممالک کے ایٹمی قوت ہونے کے ناطے یہ ایٹمی جنگ بن جائیگی جس میں اس کرہ? ارض پر موجود ہر چیز تہس نہس ہو جائیگی۔ مودی سرکار پاکستان کی سالمیت کیخلاف اپنی جنونیت کو بروئے کار لانے کیلئے کشمیر کو بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے جسے اقوام متحدہ کی جانب سے متنازعہ تسلیم کئے جانے اور کشمیری عوام کو استصواب کا حق دینے کے باوجود بھارتی لیڈران اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں اور اس پر پاکستان سے مذاکرات کرنے سے بدکتے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے مابین تنازعہ ہی صرف کشمیر پر ہے اور اس تنازعہ کے اندر سے ہی بھارت نے پانی کا تنازعہ کھڑا کیا تاکہ وہ اپنی جارحیت کے ذریعے پاکستان کو جغرافیائی طور پر نقصان نہ پہنچاسکے تو اس پر آبی جارحیت کا ارتکاب کرکے اسکی سلامتی کمزور کرنے کے عزائم کی تکمیل کرسکے۔
بھارت کی اس نیت کو بھانپ کر ہی 1960ء میں عالمی بنک نے دونوں ممالک کے مابین ثالثی کا کردار ادا کیا اور سندھ طاس معاہدہ کے تحت پاکستان بھارت میں پانی کا تنازعہ طے کرایا۔ یہ معاہدہ بھی بنیادی طور پر پاکستان کو اسکے پانی کے حق سے محروم کرنے کا تھا کیونکہ اسکے تحت کشمیر سے آنیوالے تین دریا راوی’ ستلج اور بیاس مکمل طور پر بھارت کے حوالے کر دیئے گئے جن پر کوئی ڈیم یا دوسرا آبی منصوبہ قائم کرنے کا پاکستان مجاز نہیں جبکہ باقیماندہ تین دریائوں سندھ’ جہلم اور چناب پر اگرچہ پاکستان کو پہلے ڈیمز تعمیر کرنے کا حق دیا گیا مگر پاکستان کے بعد ان دریائوں پر بھی بھارت کو مزید ڈیمز تعمیر کرنے کا حق دے دیا گیا۔ بھارت نے تو اس معاہدے کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا اور سندھ’ جہلم اور چناب پر بھی چھوٹے بڑے ڈیموں کے انبار لگا دیئے جس کے باعث بھارت ان دریائوں کے پانی کو بھی کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے اور پاکستان کو کبھی ان دریائوں کا پانی روک کر ریگستان میں تبدیل کرنے کی سازشیں پروان چڑھاتا ہے اور کبھی پاکستان کی جانب پانی چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبونے کی بدنیتی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اسی تناظر میں ملک کے محب وطن حلقوں میں یہ تشویش پیدا ہوئی تھی پاکستان اور بھارت کے مابین اگلی جنگ پانی پر ہوگی’ اب مودی نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی درفنطنی چھوڑ کر درحقیقت پاکستان کے ساتھ پانی کے ایشو پر ہی جنگ کی بنیاد رکھی ہے جو درحقیقت پاکستان ہی نہیں’ پوری دنیا کی تباہی کی نوبت لانے والی جنگ ہوگی۔ اسی تناظر میں چیئرمین ارسا ارشاد خان نے مودی سرکار کو باور کرایا ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو ختم نہیں کر سکتا کیونکہ عالمی بنک اس معاہدے کا ضامن ہے۔ اسی طرح سندھ طاس واٹر کونسل کے سابق چیئرمین جماعت علی شاہ نے باور کرایا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دیکر بھارت نے درحقیقت 20 کروڑ پاکستانیوں کے قتل کی دھمکی دی ہے۔
Pakistani Nation
خود بھارتی آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو پاکستان پر آبی جارحیت بہت مہنگی پڑیگی کیونکہ اس صورت میں چین پاکستان کی مدد کو آئیگا اور وہ دریائے سندھ کے پانی کا رخ موڑ کر بھارت ہی کو خشک سالی سے دوچار کردیگا۔ پاکستان کی سالمیت کیخلاف بھارتی عزائم تو یقیناً اب ڈھکے چھپے نہیں رہے جس کی بنیاد پر بھارت کی جانب سے کسی بھی صورت خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی اور اس موذی سانپ نے موقع ملتے ہی ہمیں ڈنک مارنا ہی مارنا ہے جس کیلئے مودی سرکار پھنکارے مارتی اپنے خبث باطن کا کھلم کھلا اظہار بھی کررہی ہے۔
اس وقت دونوں ممالک میں جتنی بھی سرحدی کشیدگی نظر آرہی ہے وہ سب مودی سرکار کی اپنی ہی تخلیق کردہ ہے جس میں کمی کے بجائے وہ مزید اضافے کی راہ ہموار کررہی ہے جبکہ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھ کر اور بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کرنیوالے کشمیری عوام پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر مودی سرکار پاکستان کے ساتھ امن و آشتی سے رہنے کے بھی سارے دروازے بند کرچکی ہے چنانچہ آج بین الریاستی اور بین المملکتی تعلقات کے ناطے بھارت پاکستان کے دشمنِ اول کے طور پر کھل کر سامنے آچکا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے بھی اسی تناظر میں عالمی فورموں پر اور عالمی قیادتوں کے روبرو بھارت کو مسکت جواب دیا جارہا ہے اور وزیراعظم میاں نوازشریف نے یواین جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر ایشو پر ٹھوس موقف پیش کرکے قومی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کی ہے تاہم اسکے باوجود قومی خارجہ پالیسی میں آج بھی بھارت سے سازگار’ بہتر تعلقات’ تجارت اور دوستی کو ہی فوکس رکھا گیا ہے اور نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار میں بھارت کی پیدا کردہ سرحدی کشیدگی کے باوجود پاکستان بھارت تجارت پر کسی قسم کے منفی اثرات کا ہرگز عندیہ نہیں دے رہے بلکہ دونوں ممالک میں تجارت 20 فیصد بڑھ گئی ہے۔
اگر بھارت پاکستان کی سالمیت ختم کرنے کی بدنیتی رکھتا ہے اور بھارتی وزیراعظم کی آئے روز کی دھمکیوں کے پیش نظر ہم پر جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔ مکار دشمن کا منہ توڑنے اور اسے ناکوں چنے چبوانے کی حکمت عملی پر ہی مرکوز کرنی چاہیے تاکہ اس موذی دشمن کو ہماری کسی کمزری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ بے شک عساکر پاکستان دفاع وطن کیلئے مستعد و چوکس ہیں اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھارتی عزائم پر دوٹوک جواب دے بھی چکے ہیں جن کے بقول بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنا ہی نہیں چاہتا تا۔ قومی اتحاد و یکجہتی میں قوم کا دشمن کے مقابلہ میں سیسہ پلائی دیوار والا تاثر قائم ہو گا جبکہ دشمن کے ننگے عزائم کی بنیاد پر ہمیں اس وقت صرف قومی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں ہمارے حکمرانوں کو بھی موجودہ تلخ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر بھارت کے ساتھ تعلقات کی پالیسی پر فوری نظرثانی کرنا چاہیے اور ملک کی سالمیت کا تحفظ ہی اپنی قومی خارجہ پالیسی کی بنیاد بنانا چاہیے۔ دشمن کو زیر کرنے کیلئے ہمیں آج عقاب کی آنکھ اور چیتے کی جھپٹنے والی پھرتی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دشمن پر ہر حوالے سے غلبہ پانا ہے۔