جرمنی (جیوڈیسک) پاکستانی نژاد جرمن صحافی شمس الحق کے مطابق، انہوں نے 100 سے زائد ایسی مساجد پر تحقیق کی ہے جہاں مسلمانوں کو شدت پسندی کی تعلیمات دی جاتی ہیں۔ تاہم مقامی میڈیا اس دعوے کو ’تضادات‘ اور’غلط بیانی‘ پر مشتمل قرار دے رہا ہے۔
جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارے ’اے آر ڈی‘ کے ایک پروگرام ’ٹاگیس شاؤ‘ میں سولہ جنوری 2019ء کو شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد صحافی شمس الحق نے ایک سو سے زائد مساجد میں بطور ’انڈر کَور جرنلسٹ‘ تحقیقات کی ہیں۔ شمس کے مطابق جرمنی میں ایسی متعدد مساجد متحرک ہیں جہاں مسلمانوں کو شدت پسندی کی جانب راغب کیا جا رہا ہے۔
شمس الحق سیاسی پناہ کی تلاش میں قریب تیس برس قبل پاکستان سے جرمنی آئے تھے۔ بعد ازاں جرمنی میں وہ مسلم انتہا پسندی، دہشت گردی اور پاکستان اور ایران کے امور کے ’بین الاقوامی ماہر‘ کے طور پر سرگرم ہو گئے۔ شمس الحق مختلف جرمن جریدوں اور اخبارات کے لیے اپنی صحافتی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ علاوہ ازیں حال ہی میں انہوں نے جرمن زبان میں اپنی ایک کتاب ’’Eure Gesetze interessieren uns nicht“ یعنی ’’آپ کے قوانین سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں‘‘ شائع کی جو ’’اُن کے بقول اُن کی تحقیقات‘‘ کے نتائج پر مشتمل ہے۔ تاہم متعدد جرمن ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں میں ان کی تحقیق کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ شمس الحق نے اپنی تحقیق میں ’من گھڑت‘ کہانیاں پیش کی ہیں۔
مشرقی جرمن شہر لائپزگ کے مقامی اخبار ’لائپزگر فولکس سائٹنگ‘ سے گفتگو میں شمس الحق نے اسی شہر میں قائم الرحمٰن مسجد کے بارے میں دعوٰی کیا کہ وہاں سلفی اسلام یعنی انتہاپسند اور سخت گير نظريات کے حامل اسلامی نظریات کی تبلیغ کرنے والے آئمہ کو تربیت دی جاتی ہے۔ لائپزگ میں واقع الرحمٰن مسجد پر تحفظ آئين کے صوبائی ادارے LfV کی جانب سے کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ تاہم ٹاگیس شاؤ کی رپورٹ کے مطابق سیکسنی کے صوبائی ادارے LfV نے کہا کہ الرحمٰن مسجد سے متعلق شمس کی جانب سے پیش کردہ اطلاعات اور ان کے دعوے درست نہیں ہیں۔
دریں اثناء پاکستانی نژاد صحافی و مصنف کا یہ بھی دعوٰی تھا کہ جرمن صوبہ سیکسنی سلفی مسلمانوں کا گڑھ ہے اور وہاں بچوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ آئینی تحفظ کے صوبائی ادارے کے مطابق سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جرمن ریاست سیکسنی میں 200 جبکہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں سلفی مسلمانوں کی تعداد 3000 ہے۔ اس اعتبار سے بھی شمس کے دعوے کی تردید ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ LfV کے پاس ایسے شواہد موجود نہیں جن سے یہ کہا جا سکے کہ سیکسنی میں بچوں کو دہشت گردی کی تربیت دی جا رہی ہے۔
جرمن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد صحافی و مصنف کی کتاب میں جن تحقیقات کا حوالہ دیا گیا ہے اُن کی تاریخوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شمس الحق نےکہا کہ وہ 2018 ء اپریل سے جرمن شہر ایسن کی ایک مسجد ’’السلام ‘‘ میں ایک جرمن صحافی کے ساتھ تحقیق کر رہے تھے، جبکہ ان کا ساتھ یہ بھی کہنا ہے کہ اسی دوران وہ آسٹریا کی مساجد میں چھ ماہ تک ریسرچ کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جون کے مہینے میں سوئٹزرلینڈ کی مساجد پر بھی تحقیقات شروع کردیں اور وہ برلن اور ہیمبرگ میں بھی مصروف تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ ان کی کتاب اکتوبر 2018ء کے آخر میں ہی شائع ہوئی تھی۔ ٹاگیس شاؤ کی اطلاعات کے مطابق شمس نے پبلشر کو اپنی کتاب کا پہلا مسودہ اپریل 2018 میں دیا تھا۔
ٹاگیس شاؤ کی رپورٹ میں ان تضادات کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شمس الحق نے ویٹیکن نیوز کو انٹرویو میں پاکستانی مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ تاہم آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے۔ جرمن نشریاتی ادارے ہیسشے رنڈفنک کو سیف الملوک نے بتایا ہے کہ ان کی موکلہ آسیہ بی بی سے کسی صحافی کا رابطہ نہیں ہوا۔ دوسری جانب ڈوئچلانڈ فنک سے گفتگو کرتے ہوئے شمس الحق اپنے بیان پر قائم ہیں۔ اس حوالے سے شمس نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ، انہوں نے گرچہ آسیہ بی بی سے ملاقات کی ہے تاہم وہ ملاقات کا وقت اور جگہ کے بارے میں بیان نہیں دینا چاہتے۔
پاکستانی نژاد جرمن صحافی شمس الحق ان دنوں اپنی تصنیفات اور بیانات کے سبب جرمن میڈیا میں غیر معمولی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس بارے میں شمس الحق نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنی تحقیق کے حوالے سے تمام ثبوت فراہم کر یں گے لیکن بطور صحافی وہ انہیں اپنے ذرائع مخفی رکھنے کا قانونی حق بھی حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے اسکینڈل کے بارے میں جلد ہی اپنا بیان منظر عام پر لائیں گے۔