کرونا وائرس نے جب انسانوں کو انسانوں کے لیئے خطرہ بنا کر اپنا پھیلائو بڑھایاتو اسے عالمی وبا کا درجہ دے کر اس کے پھیلاو کو روکنے کے لیئے پوری دنیا حالت جنگ میں چلی گئی۔ کسی نے اسے تیسری عالمی جنگ کے طور پر جانا اور کسی نے اسے فطرت کا ورلڈ آرڈر تصور کیا۔ کسی نے اس وبا سے لڑنے کا عزم کیا تو کسی نے اس سے بچنے میں عافیت جانی۔اس وبا نے پوری دنیا کی ضرورتوں،خوابوں اور خواہشوں کو یکسر بدل دیا۔سونے کے دماغ اور چاندی کے دل وینٹی لیٹر،دستانے،ماسک اور سینیٹائیزر ڈھونڈنے لگ گئے۔ ذہنوں کے درمیاں بڑھتے فاصلوں کے ساتھ انسانوں کے درمیاں فاصلوں کو بھی بڑھانے کی مجبوری نے اس دنیا کو اور دکھی کردیا۔اتنی آسان موت کے تجربے سے دنیا پہلے نہیں گزری تھی۔ہر انسان صبح گیا یا شام گیا کا تصور کرکے بے بس ہوگیا۔ اس دنیا کے دھنک رنگ بکھر کر بے رنگ ہوگئے۔
کچھ دن تو کرونا کی وبا نے دنیا کو خوف کے قرنطینہ میں رکھا لیکن اسے ناکامی ہوئی۔موت کے اس ماحول میں کسی انسان نے کرونا کے خوف کے خلاف سازش تیار کی وئہ اٹھا اپنے موسیقی کے آلات اٹھائے چوتھی منزل کی بالکونی میں آ کر نیچے اس نے بے بس دنیا کو دیکھا اور موسیقی کے سر بکھیر دیئے اور ساتھ ہی اس نے حوصلے اور خوشی کا نغمہ اس جوش سے گایا کہ سڑک پر فاصلہ بڑھاتے انسان اس کھڑ کی کے سامنے اکٹھے ہوکر یک آواز ہو کر گانے لگے۔ایسے لگا کہ زندگی پھر لوٹ آئی ہو۔بکھرے رنگ سمٹ کر یک رنگ ہو گئے ہوں۔ کسی صوفی نے بھی کرونا کے خوف سے عاجز انسانوں سے سوال کیا تھا کہ یہ وحشت اپ پر کیوں چھائی ہوئی ہے؟ تو موت سے بھاگتے انسانوں نے اس شخص کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تو کرونا کو نہیں جانتا؟ تو بزرگ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور بولا نہیں میں تو صرف اللہ کو جانتا ہوں۔ہمارے پاس تو کسی کی دی ہوئی مستعارزندگی ہے اگر وئہ واپس لینا چاہتا ہے توگھبراہٹ کیسی لے لے آپنی زندگی ۔ پوری دنیا میںحکومتوں نے اپنے باشندوں کو کرونا کی وبا سے محفوظ رکھنے کے لیئے مختلف احتیاطی اور حفاظتی ماڈل سیٹ کئے ان حفاظتی ماڈلوں سے کرونا سے نبرد آزما ممالک مستفید ہوئے۔
پاکستان نے بھی کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے والے ممالک کے تجربات سے سیکھا اور ساتھ ہی اپنا پاکستانی ماڈل بھی روشناس کرایا۔وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلی مراد علی شاہ کی کرونا پارٹنرشپ بھی قوم کو یاد رہے گی۔ قوم جس وقت کروناوباسے ذہنی دباوء اور گھبراہٹ کا شکار تھی اس وقت ان دونوں قائدین نے اپنا فرض خوب نبھایا قوم کو ذہنی آسودگی اور سکون فراہم کرنے کے لیئے کئی پرکشش اعلانات اتنے تواتر سے کیئے اور اتنے خزانوں کا منہ کھولا، لگتا تھا کہ اس دھرتی پر اب کوئی ایک غریب بھی باقی نہیں بچے گا۔بے روزگا رہوں یا دھاڑی دار۔مزدور ہو یا مل مالک۔ضرورت مند ہویا سفید پوش سب کو بیک وقت کمال حکمت عملی سے اتنی خوش فہمیاں بانٹی کہ کرونا کا رعب اور خوف جاتا رہا۔ان دونوں رہنماوں نے قوم کو یہ بھی نہ سمجھنے دیا کہ ملک میں فل لاک ڈاون تھا کہ سمارٹ لاک ڈاون۔پاکستان میںاللہ تعالیٰ کی نصرت ان پہنچی ہے جہاں روزے سے قوت مدافعت میں اضافہ ہو گا وہاں رمضان کے حوالے سے ایک ماہ کے اضافی مذ ہبی لاک ڈاون سے کرونا کی وبا پہ قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
مستقبل میں عالمی وبائوں پر قابو پانے میں جہاںکرونا کے تجرباتی ماڈل دنیا کے کام آئیں گے وہاں پاکستانی سیاسی کرونا ماڈل بھی یقیناً دنیا کو مستفید کرے گا۔