پاکستانی سیاستدان بھی آجکل اس مچھر کی طرح بنے ہوئے ہیں جس نے تیز آندھی کے دوران خود کو بچانے کے لیے ایک مضبوط درخت کا سہارا لیتے ہوئے اسکے ایک تنے کے ساتھ لپٹ گیا اور جب تیز آندھی رکی تو دوبارہ اپنی آڑان بھرنے سے قبل درخت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج اگر میں نہ ہوتا تو یہ اندھیری تمھیں کب کا جڑوں سمیت اکھاڑ چکی ہوتی۔
بلکل اسی مچھر کی طرح ہمارے سیاستدان بھی جمہوریت کو بچائے ہوئے ہیں اگر یہ آمریت کے دنوں میں ڈکٹیٹر کی بغلوں میں نہ چھپتے تو آج ملک میں جمہوریت نہ ہوتی اور میں تو ذاتی طور پر ان سب سیاستدانوں کا بہت مشکور ہوں کہ ان کی کوششوں سے آج ہر پاکستانی جمہوریت کے مزے دہشت گردی کے سائے میں خوب لے رہا ہے۔
ہر طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں پہلے تو کراچی میں آگ لگی ہوئی تھی جو اب ان جمہوری مچھروں کی خصوصی کاوشوں سے پورے ملک میں پھیل رہی ہے کوئٹہ میں انسانی جانوں کے ساتھ اس بے دردری سے کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ ایک ہی ساعت میں درجنوں معصوم اور بے گناہ بچے ،جوان،عورتیں اور بوڑھے لقمہ اجل بن گئے مگر اس جمہوریت کے رکھوالوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی لاہور میں ایک ڈاکٹر کو اسکے بیٹے سمیت قتل کردیا گیا بھوک افلاس اور غربت کی وجہ سے لوگ فاقوں اور خودکشیوں پر مجبور ہیں پورے پاکستان میں بے چینی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کسی کو بھی اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آرہا سرکاری افسران کی تو ویسے ہی موجیں لگی ہوئی ہیں۔
کرنا کرانا کچھ بھی نہیں اور ہر چیز گھر بیٹھے مفت میں مل رہی ہے جس کے ہاتھ جو اختیار ہے وہ اس سے دن رات جائز اور ناجائز فائدے اٹھا رہا ہے بندروں کا کام گدھوں سے لیا جارہا ہے اور گھوڑوں کا کام بندروں کے سپرد کردیا گیا ہے خادم اعلی میرٹ میرٹ کی گردان کرتے نہیں تھکتے مگر سب سے زیادہ میرٹ کی دھجیاں بھی انہی کے دور حکومت میں آڑائی جارہی ہیں ہمارے حکمرانوں میں زد اور انا اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ملکی معاملات پر بھی اب اکٹھے نہیں ہو سکتے مگر جب انکے اپنے ذاتی معاملات ہوں تو پھر یہ وسیع ترقومی مفاد میں ایک ہی جھٹکے میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
پچھلے پانچ سال قومی مفاد میں ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ رہی اور کراچی میں امن وامان کی مثال قائم کردی اور اب جیسے ہی الیکشن قریب آرہے ہیں تو پھر یہ سیاسی لیڈر تیز آندھی سے بچنے کے لیے کسی اور سہارے کی تلاش میں ہیں اور جب اس حکومت کا خاتمہ ہو گا تو اسکے پیچھے بہت سی کہانیاں جنم لیں گی کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ان بہادر سیاستدانوں نے کس کس کے نام پر کتنی کتنی لوٹ مار کی اور تو اور پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ڈپٹی سپیکر رانا مشہود کا جب کھاتہ کھولا جائیگا۔
Punjab Assembly
انہوں نے بطور قائم مقام سپیکر کتنی لوٹ مار کی اور کتنے جعلی بل فائلوں کی زینت بنے ابھی انتظار ہے تو صرف اس بات کا کہ یہ حکومت ایک بار چلی جائے اور نگران حکومت کے آتے ہی کرپشن کے ایسے ایسے پنڈورا بکس کھلیں گے کہ سب کی انکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہ جس ہسپتال میں غریب مریض کو ایک گولی نہیں ملتی وہی سے ایک ایک ایم پی اے لاکھوں روپے کی دوائی لے گیابس ابھی تھوڑا انتظار ہے کہ کب یہ ایوان اپنے معززنمائندگان سے جان چھڑوائے اور وہ واپس اپنے گھروں کو جائیں اور پھر نئے آنے والے جمہوریت کے اس درخت کو ضرور دیکھیں گے جہاں پرتیز آندھی میں مچھروں نے جپھا ڈالا ہوا تھا کہ واقعی درخت انہی مچھروں کی وجہ سے ہی محفوظ رہا ہے یا مچھر اس درخت کی مضبوطی کا فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔
آخر میں حکام بالا کی توجہ اس طرف بھی مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ جسکا جو کام ہے اس سے وہی کام لیا جائے تو کچھ نہ کچھ کام چلتا رہات ہے اگر آپ نے پٹواریوں سے منڈیوں کے ریٹ چیک کروانے اور انہیں ہی دوکانوں پر باٹ چیک کرنے کے لیے بھیجنا ہے تو پھر باقی کے محکمے جو اس کام کے لیے مخصوص ہیں ان سے کیا کام لیا جا رہا ہے۔
کیا پٹواری ،اساتذہ اور کلرک انہی کاموں کے لیے رہ گئے ہیں کہ وہ وزیر اعلی کے جلسوں میں جاکر حاضری بھی لگوائیں انکے جلسوں کے اخراجات بھی برداشت کریں اور پھر ان سے بہتر کام کی امید بھی رکھیں وہ بھی آپ کی حکومت کے عام خادم ہیں خادم اعلی تو نہیں ہیں کہ جنکے سارے اخراجات خادم ہی برداشت کرتے ہیں۔