پاکستانی سیاست کے بھی عجب رنگ دکھائی دیتے ہیں کہیں ڈھیل، ریلیف، ضمانتیں مل رہی ہیں اور کہیں سیاستدانوں کے خلاف دھیرے دھیرے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے کہیں شہنائی گونج رہی ہے اور کہیں صف ماتم بچھ رہی ہے ماضی کی دوبڑی سیاسی جماعتیں جو مختلف اوقات میں اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان رہی ہیں ان دونوں جماعتوں کے قائدین کے سیاسی زندگی میں کئی نشیب و فراز نظر آتے ہیں ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب میاں برادران کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا تھا تب زرداری آنکھوں کا تارا اور راج دلارا بنا ہوا تھا شریفوں کو عدالتوں میں لایا جا رہا تھا اور زرداری کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہے تھے اور بلوچستان میں حکومت گرانے کے منصوبے سندھ میں بیٹھ کر تیار ہوتے تھے مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کے لئے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر سینیٹ میں اپنا چیئر مین منتخب کرانے پہ نہال ہوئے جا رہے تھے عام اتخابات فیئر ہوئے یا اس میں گڑ بڑہوئی یہ ایشو نہیں ہے عام انتخابات کے بعد ”مفاہمتی جادوگر کے ساتھ ”ہاتھ” ہوا سب نے دیکھا اور اس کا خمیازہ اب بھگت رہے ہیں حکومتیں بنانے اور گرانے والوں نے اس بات پہ اتفاق کر لیا ہے کہ بیک وقت ماضی کے دونوں حکمرانوں کے خلاف محاذ نہیں کھولنا اس نئی پالیسی کے تحت ایک کو ”ڈھیل و ڈیل”اور دوسرے کو ”ذلیل” کرنے کا منصوبن بن چکاہے جب میاں برادران زیر عتاب تھے تب زرداری خاموش تھے اب زرداری زیر عتاب ہیں اور شریف برادران لب کشائی سے گریزاں ہیں۔
یوم پاکستان کے دو یوم بعد ہی طلوع ہونے والا سورج سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور صدر پاکستان مسلم لیگ و سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے لئے خوش خبری لے کر آیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کو 6 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی، تاہم وہ اس مقررہ میعاد کے دوران بیرون ملک نہیں جاسکیں گے منگل کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی اور جسٹس یحیی آفریدی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی پاکستان کی بڑی عدالت کے چار صفحات کے مختصرفیصلہ سے ملک بھر میں سیاسی کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔تمام لیگی کارکن اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئے مسلم لیگ ن کی ایم پی اے عظمیٰ زاہد بخاری نے نواز شریف کی ضمانت پر اظہار تشکر کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرادی دوران سماعت میاں صاحب کے وکیل اور عدالت عظمی کے ججز کے درمیان بڑے دلچسپ اور تلخ و شیریں سوالات و جوابات ہوئے ججز کے ریمارکس سے ایسے گمان پیدا ہو رہا تھا جیسے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جائے گی لیکن عدالت عظمی کے فیصلہ کے مطابق سابق وزیر اعظم کو ڈیڑھ ماہ کے لئے ریلیف مل گیا۔
ضمانت کی مقررہ میعاد پوری ہونے پر نواز شریف کودوبارہ ”سرکاری مہمان ”کی سعادت حاصل کرنا ضروری ہوگا سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر 6 ہفتوں کے لئے ضمانت منظور کی عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں نواز شریف کو 50 لاکھ مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا نواز شریف ملک نہیں چھوڑ سکے، وہ 6 ہفتے میں اپنی مرضی کا علاج کراسکیں گے، نواز شریف 6 ہفتے بعد سرنڈر کریں گے، سرنڈر نہ کرنے پر گرفتاری عمل میں لائی جائے گی عدالت عظمی سے جلد سماعت کی درخواست واپس ہونے کے بعد 11 مارچ کو سابق وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے 25 فروری کے فیصلے کے خلاف ضمانت کی درخواست کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے نئی درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ نواز شریف کی صحت پہلے سے زیادہ خراب ہے، لہذا عدالت رواں ہفتے ہی درخواست کی سماعت مقرر کرے جسے عدالت نے 19 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں شک کی بنیاد پر بری کردیا تھا جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔ مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
جبکہ لاہورہائیکورٹ میں قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی اور صدرن لیگ شہبازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیاعدالت عالیہ کے اس حکم سے ”شریف برادران” کی خوشیاں دوبالا ہو گئیں حکومت بیک وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ قبول کیا گیا تاہم شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ شہبازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
شریف خاندان کا جو بندہ باہر گیا وہ واپس نہیں آیااس طرح حکومتی حلقوں میں بھی دو آراء سامنے آ گئیں اوپر سے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا اسی روزحکومت کے خلاف ٹرین مارچ کرنا بھی حکومتی پریشانی کا باعث بن گیا میاں صاحب کو طبی بنیادوں پہ ریلیف مل گیاالعزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید بامشقت کی سزا کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ان کی ضمانت پر رہائی کے عدالتی حکم کی اطلاع جیل میں دی گئی سماعت اور فیصلے کے وقت نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں اپنے سیل میں موجود تھے حالات و واقعات نے بڑے میاں کو بہت کچھ سکھا اور سمجھا دیا ہے اب معاملات مذاکرات کی جان بڑھیں گے ڈھیل ۔۔۔ڈیل میں بدل جائے گی اور وہ ”تبدیلی”جو حکومت لانا چاہتی تھی وہ تو شاید نہ آسکے لیکن وقت تبدیل ہو رہا ہے اوربہت کچھ تبدیل کرنے والا ہے۔