تحریر: سید انور محمود پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ غربت ہے، اگریوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ غربت صرف ایک مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ غربت کی کوکھ سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔غربت جہالت میں اضافے کا سبب بنتی ہے، غربت ہی ملک کی مجموعی پیداوار اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔پاکستان میں مزدور طبقے کی ایک بڑی اکثریت غلاموں کی طرح زندگی گذار رہی ہے،حکومت یا تو سرمایہ دار کی ہوتی ہے یا پھر جاگیردار کی اور یہ دونوں طبقے اپنے پاس کام کرنے والوں کو اپنا غلام تصورکرتے ہیں۔ ایک عالمی مطالعے کے مطابق غلامی جیسے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور افراد کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھرمیں تیسرے نمبر پر ہے جو باعث شرم ہے۔حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن کوئی بھی غریبوں کی زندگی کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتا لہذا اپنے ان حالات کو بدلنے کے لیے اپنے طور پر ہر شخص خود کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹ ان کو اچھے مستقبل کے سنہرے خواب دکھاتے ہیں۔ کہتے ہیں غرض مند اندھا ہوتا ہے اور غربت کے مارئے یہ لوگ ان ایجنٹوں کے جال میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرمنی تک پہنچانے کے اخراجات پانچ لاکھ روپے فی کس روانگی سے پہلے ہی وصول کرلیتے ہیں۔ عام طور جب یہ پاکستانی یونان پہنچتے تو مزید سفر کے تمام راستے مشکل ترین ہوتے ہیں تب ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ خبریں مسلسل میڈیا میں آتی ہیں لیکن پھر بھی لوگ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔
یورواسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں نے مختلف یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ جرمنی یا اٹلی پاکستانی تارکین وطن کی پسندیدہ منزل ہوتی ہے۔لکسمبرگ میں قائم یورپی یونین کے دفتر شماریات یورواسٹیٹ نے گزشتہ سالوں کے دوران پاکستانی شہریوں کی درخواستوں پر سنائے گئے فیصلوں سے متعلق اعداد و شمار بھی جاری کیے ہیں، جن کے مطابق سال 2015 اور 2016 کے دوران یورپی یونین کے 28 رکن ممالک میں حکام نے مجموعی طور پر 51 ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں پر فیصلے سنائے۔ ان 51 ہزار پاکستانی باشندوں میں سے قریب 10 ہزار500 کو باقاعدہ طور پر مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دے دی گئی، جب کہ 40 ہزار پاکستانیوں کی درخواستیں مسترد کردی گئیں۔ مجموعی طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے پناہ کے کامیاب درخواست گزاروں کا تناسب 21 فیصد رہا۔ 2015 میں یورپ بھر میں 26.5 فیصد پاکستانیوں کی درخواستیں منظور کی گئی تھیں جب کہ یہ تناسب 2016 میں کم ہو کر صرف 17 فیصد رہ گیا۔
پچھلے دو سال کے دوران 46 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کےلیے درخواستیں صرف دو ممالک، جرمنی اور اٹلی میں جمع کرائی تھیں۔ اٹلی میں 20 ہزار پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے جن میں سے قریب 8 ہزار (یعنی 40 فیصد) کو پناہ دے دی گئی۔ اس لحاظ سے یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت اٹلی نے سب سے زیادہ پاکستانیوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔لیکن اٹلی میں بھی 2015 کے مقابلے میں گزشتہ سال پاکستانی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے تناسب میں کمی دیکھی گئی۔ 2016 میں اٹلی میں 37 فیصد پاکستانی پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور ہوئیں جب کہ اس سے ایک سال قبل یہی تناسب 44 فیصد سے بھی زائد تھا۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح انتہائی کم ہے۔ جرمنی کی انتظامی عدالتوں میں ڈھائی لاکھ سے زائد تارکین وطن نے ابتدائی فیصلوں میں درخواست رد کر دیے جانے کے خلاف اپیلیں جمع کرا رکھی ہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی مسترد درخواستوں کے خلاف جمع کرائی گئی اپیلوں میں تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ اپیلیں پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے جمع کرائی گئی ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی اپیلوں کی شرح 53 فیصد سے بھی زائد ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران جرمنی میں پاکستانی شہریوں کو پناہ دیے جانے کی مجموعی شرح صرف 5.5 فیصد رہی۔ گزشتہ سال 13 ہزار پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے تھے، جن میں سے قریب 97 فیصد رد کر دی گئی تھیں۔ مجموعی طور پر 11 ہزار 500 پاکستانیوں کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے، جن میں سے محض 625 پاکستانی ہی جرمنی میں پناہ کے حقدار قرار پائے۔
برطانیہ میں بھی اس عرصے میں پاکستانی شہریوں کی دائر کردہ پناہ کی درخواستوں میں سے 6500 سے زائد کا فیصلہ ہوگیا اور ان میں سے 80 فیصد سے زائد درخواستوں کومسترد کردیا گیا۔یورپی یونین کی رکن دیگر 25 ریاستوں میں بہت کم تعداد میں پاکستانی تارکین وطن نے اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ تناسب کے اعتبار سے اسپین میں 48 فیصد جبکہ پرتگال میں 45 فیصد پاکستانیوں کی درخواستیں منظور ہوگئیں لیکن ان دونوں ممالک میں بالترتیب 215 اور 55 پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنائے گئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں تناسب زیادہ تھا مگر مجموعی تعداد بہت کم۔یونان میں 4000 پاکستانیوں کی درخواستوں پر فیصلے سنائے گئے، جن میں سے صرف 90 افراد پناہ کے حقدار سمجھے گئے۔اسی طرح فرانس میں 4500 سے زائد پاکستانیوں کی درخواستیں نمٹائی گئیں، جن میں سے 7 فیصد سے بھی کم افراد کو مہاجر تسلیم کیا گیا۔گزشتہ سال چیک جمہوریہ، بلغاریہ، ڈنمارک، ایسٹونیا اور لکسمبرگ جیسے یورپی ممالک میں کسی ایک بھی پاکستانی شہری کو پناہ نہیں ملی۔
سابق پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثارنے یہ حکم جاری کیا تھا کہ یورپ سے واپس بھیجے جانے والے ایسے تارکین وطن کو جہاز سے نہیں اترنے دیا جائے جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ یا پھر پاسپورٹ نہ ہوں۔ اسلام آباد حکام کے مطابق پاکستان ان تارکین وطن کو واپس نہیں لے گا، جن کا کریمنل ریکارڈ ہو یا پھر ان کے پاس دہری شہریت ہو۔ ایسے پاکستانی جو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں کے زریعے یورپ پہنچتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کے پاس نہ ہی پاکستانی پاسپورٹ ہوتا ہے اور نہ ہی قومی شناختی کارڈ۔ ان بدنصیب پاکستانی مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد انہیں وطن واپس آنے کےلیے پاسپورٹ یا پھر شناختی کارڈ کے حصول کے لیے پاکستان کے سفارت خانے یا پھر قونصلیٹ سے رابطہ کرنے کےلیے کہا جاتا ہے۔ پاکستانی سفارت خانہ یا قونصلیٹ جمع کروائے جانے والے کاغذات تصدیق کے لیے پاکستان بھیج دیتا ہے اور بعض اقات اس عمل میں کافی عرصہ سال لگ جاتا ہے۔ سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن آ نا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں، انہیں پوری خوراک بھی نہیں ملتی۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گذشتہ سال دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
یونان سے ایک پاکستانی نے ایک ویب سائٹ کو کچھ تصاویر بھیجی تھیں جو سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جو لوگ یورپ میں بہتر زندگی کے خواب دیکھتے ہیں یہ تصاویر اس کے برعکس ہیں۔ ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں یونان میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔ اس لیے میرا اپنے ہموطنوں کو مشورہ ہے کہ جب تک ان کو یورپ یا امریکہ میں رہاش کا ویزہ نہ مل جائے وہ ہر گزسفر نہ کریں اور خاصکر انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں کے بہکاوئے میں نہ آیں۔ آج دنیا بدل چکی ہے ، بغیر کاغذات کے آپکا واپس وطن آنا بہت مشکل ہوگا۔ دہشتگردی اب یورپ میں بھی عام طور پر ہوتی ہے اوریورپ کے لوگوں کا عام خیال یہ ہوچکا ہے کہ مسلمان اور خاصکر پاکستانی عام طور پر دہشتگردی میں ملوث ہوتے ہیں، لہذا اگر آپ وہاں بغیر شناختی کاغذات کے پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو آپ پر دہشتگردی کا الزام بھی آسکتا ہے کیونکہ آپ مسلمان بھی ہیں اور پاکستانی بھی۔
ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے اپنے شہریوں کا تحفظ کرنا۔ حکومت کو چاہیے کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں کا مکمل خاتمہ کرئے اور جو پاکستانی اس وقت یورپ کے مختلف مہاجر کیمپوں میں بدترین زندگی گذار رہے ان کو جلد از جلد واپس پاکستان لائے۔ اگر آنے والی حکومتیں غربت کے خاتمے کی کوشش کریں تو شاید لوگ اپنا وطن چھوڑ کر کہیں نہ جایں۔