تحریر : محمد شعیب تنولی کسی احمق بادشاہ نے ایک دن اپنے وزیر کو بلایا اور حکم دیا۔ وزیر بات دبیر! آپ ہم سے کوئی پہیلی پوچھیں لیکن ایک شرط ہے کہ پہیلی نہایت آسان ہو جو ہم آسانی سے بوجھ لیں اور بھرے دربار میں ہم شرمندہ نہ ہو۔ اور ہاں! یہ بھی کان کھول کر سن لو کہ اگر ہم پہیلی نہ بوجھ سکے تو آپ کا کدو جیسا سر قلم کردیا جائے گا۔”
یہ سن کر وزیر کے ہوش اڑ گئے۔ اسے علم تھا کہ بادشاہ سلامت عقل کے کورے ہیں اور آسان سے آسان پہیلی کا جواب بھی نہ دے پائیں گے اور یوں اس کا سر قلم کردیا جاۓ گا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا اور ایسی پہلیوں کو یاد کرنے لگا جو عام طور سے بچے آپس میں پوچھتے ہیں۔ لیکن ہر پہیلی بادشاہ سلامت کے لیے مشکل لگی۔ بہر حال وزیر نے دھڑکتے دل کے ساتھ بادشاہ سے کہا:
اچھا بادشاہ سلامت! بتایۓ “ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا ہے دھوبی کےگھاٹ پہ رہتا ہے”؟
Angry
اتنا سنتے ہی بادشاہ سلامت سوچ میں پڑ گئے۔ وزیر کو خون خوار نظروں سے دیکھا جس نے اتنی مشکل پہیلی پوچھ کر ان کو پریشانی میں ڈال دیا۔ کچھ دیر کشمکش میں رہنے کے بعد بولے: “ارے بھائ کچھ اتا پتا تو بتا دو” وزیر نے عرض کیا: “حضور! میں زیادہ کھل کر اتا پتا تو نہیں دے سکتا۔ بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ یہ جانور گھوڑے کا ہم شکل ہے۔ بوجھ ڈھونے کے کام کرتا ہے۔ بے وقوف کہلاتا ہے”
بادشاہ سلامت پھر سوچوں میں غرق ہوگیۓ۔ وزیر خوف سے کانپ رہا تھا اور اسے اپنا سر قلم ہونے کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ اچانک بادشاہ سلامت خوشی سے چونک کر بیٹھے اور مسکرا کر بولے: ” لو بھئ! پالیا اور بوجھ لی ہم نے پہیلی۔ ” وزیر کی جان میں جان آئی اور اشتیاق سے بادشاہ سلامت کا جواب سننے کے لیے ان کے نزدیک آگیا۔ جی فرمایۓ حضور! ہمیں یقین تھا کہ آپ آسانی سے بوجھ لیں گے حالانکہ پہلیوں کے بین الاقوامی مقابلے میں بڑے بڑے عقلمند بادشاہ یہ پہیلی بوجھنے میں ناکام رہے تھے:
“کـــــتـــا” بادشاہ فاتحانہ انداز میں چلاۓ۔ وزیر سناٹے میں آگیا اور اس کا دل ڈوبنے لگا لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور بادشا کو تعریفی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا: ” حضور! اتنی جلدی بالکل صحیح جواب دے دیا”