دنیا میں صرف حکومتی قرض ہی وہ واحد قرض ہوتا ہے جسے لینے والا کوئی اور ہوتا ہے اور دینے والا کوئی اور عام آدمی جب اپنی ضروریات کو پورا کر نے کے لیے دوسرے لوگوں یا بینکوں سے قرضہ لیتا ہے تو اسے خود ہی وہ قرضہ اداکرنا پڑتا ہے مگر اس میں اگر وہ قرض نہ بھی لے تو تب بھی اسے ایک قرضہ تو ٹیکسوں کی مد میں دینا ہی پڑتاہے اور وہ ہے حکومتی قرض جس کے خفیہ جال میں ہمارے وہ نومولود بچے بھی پھنسے ہوئے ہیںجو ابھی ابھی پیدا ہوکر اس دنیا میں آئے ہیں ، سوال یہ ہے کہ حکومت ان قرضوں میں عام آدمی کو کس طرح سے جکڑتی ہے اس میں جہاں حکمرانوں کی زاتی عیاشیاں شامل ہیں وہاں ان کی غلط اور ناقص پالیسیوں کا بھی ایک بڑا عمل دخل ہے جس کا خمیازہ ان کو تو کیا خاک بھگتنا پڑتا ہے بلکہ یہ ساری پریشانیاں غریب عوام کی جھولی میں ہی آگرتی ہے۔
میں یقین سے کہتاہوں کہ ہماری موجودہ یا پچھلی حکومتوں نے جب سے اپنے ملک کے پیسوں کی عزت کو چھوڑ کرڈالروں سے عشق لڑانا شروع کیاہے اسی وقت سے پاکستان معاشی پریشانیوں کا شکار چلا آرہاہے ۔پاکستانی نوٹوں کی بے قدری کرنے والے اور ڈالروں سے رغبت رکھنے والے اپنی عقل قل کے آگے کسی کی نہیں سنتے بلکہ اس قدر بربادی کے بعد بھی وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے وہ بھی کچھ غلط کرسکتے ہیں۔
حالانکہ روپے کی قدر گرنے سے اور ڈالر میں اضافے سے جو پاکستان کے اوپر قرض ہے اس میں اضافہ ہوگا یعنی جتنا ڈالر مہنگا ہوگا اتنا ہی اس پر سود بڑھے گااور قرضہ بھی دگناہوگا،لگتا تو یہ ہی ہے کہ معاشی عذاب ہم لوگوں پر جان بوجھ کر لادا جارہاہے ،دنیا بھرکے کاروباری لوگ ہم سے اس لیے بھی کاروبار کرنے سے ڈرتے ہیں کہ وہ جان چکے ہیں کہ پاکستانی روپے کی عزت بھارت ،بنگلہ دیش سے بھی کئی گناہ کم ہے ،وہ پاکستان کو ایک تنگدست اور ضرورت مند ملک سمجھنے لگے ہیں کچھ عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کے پاس پاکستان کے ساتھ کاروباری شراکت کے لیے گئے تھے یعنی خودمختاری کی علامت بن کر ان کے پاس گئے تھے ا س کے ساتھ وہ دیگر ممالک کے پاس بھی جانے کا رادہ رکھتے تھے مگر شاید وہ یہ بھول رہے تھے کہ جس ملک کے روپے کی عزت اس ملک کی عوام میں ہی نہ تو اس ملک سے کوئی ڈالروں اور ریالوں والا ملک کس طرح سے سودے بازی کرسکتاہے اسی طرح سیدھی سے مثال ہے کہ اگر امریکا یا اقوام متحدہ میں سے کوئی پاکستان سے ایک روپیہ طلب کرے تو کیاوہ اسے ایک سکہ اٹھا کردینگے ؟ ، کیا ہے ایسا ہمارے پاس جو ہم دوسرے ممالک کے سامنے اپنی اور اپنے ملک کی عزت کرواسکیں ؟۔ اس وقت پاکستان پوری دنیا میں ان ممالک میں شامل ہے جس کے پاس ایک روپے دو روپے اور پانچ روپے کا نوٹ دستیاب نہیں ہے بلکہ ان کی جگہ سلور اور تانبے کے سکے موجود ہیں۔
ان سکوں کی یہ حالت ہے کہ اگر انہیں الگ الگ کرکے لاکھوں روپیہ بھی پھینک دیں تو ان کو اٹھانے والا شاید اب کوئی نہیں ہے دنیا کے غریب سے غریب اور امیر سے امیر سے ملکوں میں میں ایک روپیہ دو روپیہ اور پانچ روپے کے نوٹ دستیاب ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بیٹھے ان افسران کے ہی یہ کارنامے ہیں جو ان نام نہاد حکمرانوں کو الٹے سیدھے مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں ،اور ان نوٹوں کو سکوں میں تبدیل کرنے میں آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ عوام کی کس قدر خون پسینے کی کمائی ضائع ہوتی ہے ،اب توسننے میں آیاہے کہ حکومت نے دس روپے کا سکہ بھی جاری کردیاہے ۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتاہے مگر یہاں کی کرنسی کی عزت دنیا کے غریب سے غریب ممالک سے بھی بدتر دکھائی دیتی ہے ،جس وقت یہ نوٹ بند کیئے گئے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ کہا گیا تھا کہ یہ نوٹ باآسانی ہار اور سہرے بنانے والے ضائع کردیتے ہیں حالانکہ یہ نا سمجھ میں آنے والی منطق ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سارے ملک میں موجود دو چار سو سہرے بنانے والوں کی وجہ سے پوری قوم کی جیبوں کی قربانی دینا کہا کہ عقلمندی ہے۔
ہمارے یہاں پاکستان کا کچھ حال ایسا ہے کہ عوام کے لیے حفاظتی انتظامات کرنے والے ذمہ داران اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے الٹاعوام کوہی پریشانیوں سے دوچار کردیتے ہیں مثلاً دہشت گردی کے خوف سے بڑی بڑی شاہراہوں کو بڑے بڑے بیئریئر اور دیگر رکاوٹوں سے بند کردیا جاتاہے علاوہ ازیں عوامی خدمت پر مامور سرکاری اداروں کے تمام گیٹ بند اور ایک کھلا جو آنے اور جانے کے لیے استعمال ہوتاہے یعنی جہاں دہشت گردی کو روکنا مقصود ہوتاہے وہاں عوام کو زہنی طورپر ٹارچرکردیا جاتاہے جو عوام کے لیے ایک ناختم ہونے والا عذاب مسلسل دے جاتاہے ،یعنی ڈھاک کے وہی تین پات ۔ وہ لوگ جن کی عمریں ساٹھ سال یا اس سے زیادہ ہیں انہیں اچھی طرح یاد ہوگا کہ 1960تک پیتل اور تانبے کا ایک پیسہ ہوتا تھا جو اسپیر پارٹس کے واشل کی طرز کا ہوتا تھاجس میں ایک بڑا سا سوراخ ہوتاتھا اس کے علاوہ ایک اور دو روپے کا بہترین تانبے کا سکہ ایک آنے کا نہایت خوبصورت جست کا بنا ہوتا تھا اور دوآنے کا چار کونوں والا بہترین سکہ اور چار آنے آٹھ آنے اور پورے ایک تولے کا ایک روپیہ دستیاب تھا جس کو باقاعدہ سنار ایک روپے کا سکہ بطور باٹ رکھ کر ایک تولہ سونا تول کر گاہک کو دیدیاکردیتا تھامگر اس کے ساتھ ایک روپے کا نوٹ بھی دستیاب تھا جس کی پشت پر کشتی جو مشرقی پاکستان کی نمائندگی کرتی تھی اور لاہور کی بادشاہی مسجد جو مگرمغربی پاکستان کی نمائندگی کرتی تھی۔
ان پیسوں کی بہت قدر تھی اور یہ تھوڑے سے پیسے انسانی ضروریات کے بہت کام کے ہوتے تھے یہ زمانہ وہ تھا جب قوم کو آئی ایم ایف جیسی الا بلاکا نام تک معلوم تھا اداروں میں موجود بہت اچھے اور سادھے افسران ہوتے تھے مگر آج اسٹیٹ بینک کے افسران کو اب میں کن القابات سے نوازوں کچھ سمجھ نہیں آتا جو انہوں نے عوام کو ایک روپے دو روپے اور پانچ روپے کے نوٹوں سے محروم کردیاہے اور مزے کی بات ہے کہ اسٹیٹ بینک کے دانشوروں نے جو پانچ روپے کا سکہ جاری کیاہے اسے تو دوربین لیکر ہی دیکھنا پڑتاہے اس قدر چھوٹاہے وہ، معصوم اور چھوٹے بچے بھی اس سکے کو ہاتھ میں لینا اپنی زلت سمجھتے ہیں یہ سب ان ہی لوگوں کی خانہ خرابی ہے جوانہوں نے دوسرے ممالک میں تو کیا خود ہماری نظروں میں بھی اپنے پیسوں کی عزت خراب کروارکھی ہے ۔ کاغذی اور سکوں کی کرنسی کے بیوپاری لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں جب چاہیں مارکیٹ میں کسی بھی چیز کی قیمت کو گراددیں اور جب چاہیں بڑھا دیں اور جب چاہیں ان نوٹوں کو چھاپ کر اپنی ضرورت کو پورا کرلیں مگر کوئی پوچھے کہ یہ کام تو اسٹیٹ بینک تو کرلے گا مگر اس ملک میں بسنے والی کروڑوں عوام ایسا کیا کرے کہ اس کی تمام ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہیں ،بہتر ہوگا کہ حکومت اس تحریر پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس ملک میں موجود کرنسی کی عزت کروانے میں اپنا کردارادکرے اس عمل سے جہاں عام آدمی خوشحال ہوگا وہاں سبز پاسپورٹ کو بھی عزت ملے گی۔ختم شد