جرمنی (APNAانٹرنیشنل نیوز/انجم بلوچستانی) برلن بیورو اور مرکزی آفس برلن MCB یورپ کے مطابق ١٢ نومبر٢٠١٥ء کو جرمنی کی گرین پولیٹیکل موومنٹ سے منسلک بول فائونڈیشن Heinrich Böll Stiftung کی جانب سے”پاکستان ا ور افغانستان کی سیاست میں خواتین کے کوٹہ کا جائزہ” پر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں مہمان پروفیسر Andrea Fleschenberg کی صدارت میںایک سیمینار منعقد ہوا۔
جس میں پاکستان اور افغانستان سے تشریف لانے والی اہم سیاسی ا ور سماجی خواتین رہنمائوں، جرمنی میں پاکستانی و افغانی سفارتخانوں کے نمائندوں، اہم پاکستانی و افغانی طلباء اور پریس کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ میزبان، بول فائونڈیشن کے شعبہ ایشیا کے پالیسی ایڈوائزر Volberg T.نے مہمانو ں کو خوش آمدید کہا۔ کانفرنس میںمنسٹررخسانہ افضال نے سفارتخانہء پاکستان جرمنی،ڈاکٹر طلعت محمود نے بزنس ایسوسی ایشن پاکستان اور محمد شکیل چغتائی نے ایشین جرمن رفاہی سوسائٹی اور پاکستان عوامی تحریک،یورپ کی نمائندگی کی۔
”پاکستانی معاشرہ، دنیا کے بیشتر معاشروں کی طرح مردوں کو فوقیت دیتا ہے۔ خواتین کی اعلیٰ سرکاری عہدوں یا وزارتوںپر تقرری،اہم اور بڑی کارپوریشنز کی سربراہی یا ضلعی، صوبائی ووفاقی سطح پر فیصلہ کن قیادت، چند مثالوں کو چھوڑ کر،آج بھی انتہائی مشکل اور تقریباً ناممکن ہے۔ پاکستانی خواتین کوسیاسی ،مذہبی، معاشی اور معاشرتی دبائو کا سامنا ہے۔انہیں مذہبی انتہا پسندی، نسلی منافرت، قبائلی رسوم اور روایتی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
سیاسی پارٹیوں میں عورتوں کی نمائندگی،ملک میں انکی تعداد کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابرہے۔صوبائی اور وفاقی سطح پر پارلیمان میں خواتین کی تعدادمحدود ہے،جبکہ ان نشستوں کے لئے خواتین کامخصوص کوٹہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہیں خواتین کی عام نشستوں پر براہ راست کامیابی کا یقین نہیں۔حالانکہ یہ خدشہ کئی دفعہ غلط ثابت ہو چکا ہے۔یہ بات واقعی خوش آئند ہے کہ پاکستانی خواتین ان تمام رکاوٹوں،مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود زندگی کے ہر شعبہ میںآگے آرہی ہیں،جو بہتر مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔”
یہ باتیں پاکستان میںحقوق نسواں کی علم بردار،Centre of Excellence for Gender Studies قائد اعظم یونیورسٹی کیبنیادی ڈائریکٹر اورHECکے تحتNational Committed Gender Studies کی چیر پرسن، دنیا بھر میں انسانی حقوق کیلئے سرگرم عمل، مصنفہ، م قررہ، سماجی رہنماڈاکٹر فرزانہ باری نے سیمینار سے مرکزی خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
افغانستانی پارلیمانی وفد کی قائد،سماجی و سیاسی رہنما،رکن افغان پارلیمنٹ شنکائی ذہین کروخیل نے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ” افغانستان میں خواتین کی پارلیمنٹ میں نمائندگی بہت کم ہے،مگر یہ ایک بہت بڑی اور خوشگوار تبدیلی ہے، جسکا خیر مقدم کرنا چاہئے۔میں خود اس تبدیلی کی ایک مثال ہوں، جسے کابل میں خریداری کے لئے بھی اپنے ١٨ ماہ کے بیٹے کو محرم کے طور پر ساتھ رکھنا پڑتا تھا اور آج میں یہاں محرم کے بغیر موجود ہوں۔
افغان پارلیمنٹ میںخواتین ارکان کا سفر ابھی شروع ہوا ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ ہماری تعداد٦٨ سے ٦٩ ہو گئی ہے۔ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے مرد ساتھیوں سے بہتر کام کر رہے ہیں۔میرے والد کی وفات کے بعد میرے بھائی کو مرکزی حیثیت دی گئی تھی مگر وقت بدل رہا ہے اب لوگ اپنے کاموں کے لئے میرے پاس آتے ہیں۔میرے خاندان اور علاقہ کے لوگوں نے مجھے تسلیم کر لیا ہے۔
ہماری منزل دور اور سفر طویل ہے،مگرہم آگے بڑھ رہے ہیں۔پاکستان کی طرح ہمیں بھی مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے۔تعلیم کی کمی،غربت، خاندانی روایات اور ملکی حالات کے مدنظرخواتین کا خود کو نمائندگی کے لئے پیش کرناتقریباً نا ممکنات میں سے ہے۔اسکے باوجودان کی ملکی سیاست میں دلچسپی اور مردوں میں بیٹھ کرملک اور قوم کی ترقی کے لئے عملی اقدامات قابل قدرہیں،جن کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔”
پاکستان پیپلز پارٹی کی سرگرم رہنما،سوشل ایکٹیوسٹ،صوبہ سندھ کی سابق وزیر اطلاعات، رکن قومی اسمبلی پاکستان شازیہ مری نے کہا کہ” دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی شاونزم،انتہا پسندی اور مردوں کا راج ہے،لیکن پاکستانی عورت اس معاشرہ میں اپنی جگہ بنانے خصوصاً پارلیمانی سیاست میں عملی کردار ادا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔پارلیمنٹ میں خواتین کامخصوص کوٹہ رکھ کر ہماری اشک شوئی کی جو کوشش کی جاتی ہے،وہ ناقابل قبول ہے۔
پاکستان میںباصلاحیت خواتین کی کمی نہیں ،مگر الیکشن کا طریقہ کار اور سرمایہ کی عدم موجودگی انہیں ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے سے روکتی ہے۔خود میں دو مرتبہ پیپلز پارٹی کی خواہش کے باوجود انتخاب نہ لڑ سکی اور خواتین کی مخصوص نشست پر پارلیمنٹ کا حصہ بنی۔جس کے بعد مجھے یہ حوصلہ ملا کہ میں نے براہ راست انتخاب میں حصہ لیا اور انتخاب جیت کر یہ ثابت کیا کہ عوام اراکین پارلیمنٹ کو منتخب کرتے ہوئے اس کی جنس کے بجائے اسکی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ہمارے ملک میں فوجی آمریت زیادہ رہی اور کافی عرصہ بعد ہم حقیقی جمہوریت کے مزے لے رہے ہیں۔پاکستان مذہبی انتہاپسندی،اسلام کے نام پر دہشت گردی،بینڈجہادی گروپس اور معاشی مشکلات کا شکار ہے،جس سے خواتین کو اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کا موقعہ نہیں مل رہا،جو وقت کی ضرورت ہے۔”
”افغانستان کی جمہوریت نوزائیدہ ہے،جسے ”بے بی جمہوریت” کہا جا سکتا ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کو جرگوںکی منصفی کر نے یا مشاورت میںحصہ لینے کی اجازت نہیں۔ل ہٰذا افغان خواتین کیلئے پارلیمان کا رکن بن جانا بہت بڑی تبدیلی ہے،جس کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جو ان خواتین کے شعور اور سیاسی سوچ کا ممظہر ہے۔میں اس مرتبہ رکن نہیں بنی،کیونکہ میں مختلف شعبوں میں کام کرنے کی خواہشمند ہوں،مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر منتخب ہو نے والی ارکان پارلیمنٹ کو درپیش مسائل کا مقابلہ نہ کرسکی۔ہمیں بھی مذہبی انتہا پسندی(طالبان کی جانب سے نہیں)، شدت پسندی، رجعت پسندی و پسماندگی سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔یہ کڑا وقت ہے۔ ہم پر امید ہیں کہ ہم خواتین کو تعلیم وصحت کی بنیادی سہولتیں، روزگار کے مواقع اور معاشرہ میں انکا جائز مقام دلوانے میں کامیاب رہیں گے۔” یہ باتیںافغان پارلیمنٹ کی سابق رکن،خصوصی کمیشن برائے انتخابی اصلاحات کی رکن، سول سوسائٹی ایکٹیوسٹ ،سبرینہ ثاقب نے کہیں۔
رکن قومی اسمبلی ،پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مشہور سماجی کارکن، سکریٹری Caucus شائستہ پرویز نے تعلیم، خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود،نیزخواتین کے براہ راست منتخب ہونے کی سہولیات اور درپیش مسائل کا جائزہ لیااور Caucus کی وساطت سے اپنی کارکردگی پیش کی۔انہوں نے کہا کہ”عوام کو اس سے غرض نہیں کہ آپ کوٹہ سے آئی ہیںیا براہ راست منتخب ہو کر،عوام کواپنے مسائل کا حل چاہئے۔” اسیطرح افغان پارلیمانی رکن شاہ گل نے افغان پارلیمنٹ میںخواتین کے کردار اور ملکی مسائل کی نشاندہی کی ۔کانفرنس کے دوران بسکٹس، گر م و ٹھنڈے مشروبات اورپھل موجود تھے۔پہلے سیشن کے خاتمہ پرتمام شرکاء کے لئے سادہ ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔