تحریر : شاہ بانو میر قابل غور آیت السبا رکوع 9 ان سے کہو !! جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپُرس تم سے نہ ہوگی٬ اور جو کچھ تم کر رہے ہو٬ اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی کہو!! ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا٬ پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا۔
وہ ایسا زبردست حاکم ہے جو سب کچھ جانتا ہے٬ مشال خان ایک پاکستانی طالبعلم جس کو توہینِ رسالت کے زمرے میں دن دیہاڑے وحشت و بربریت کی مثال قائم کرتے ہوئے پہلے اُس پر تشدد کیا گیا بعد ازں گولی مار کر قتل کیا گیا اسی پر اِکتفا نہیں کیا گیا بلکہ مشتعل ہجوم اس کی لاش کی بے حرمتی کرتے ہوئے گھسیٹتے رہے اور آگ جلا کر اسے نذر آتش کرنا چاہتے تھے کہ پولیس نے انہیں منتشر کیا ٬ توہین عدالت پر ملک میں موجود قانون اپنے ہاتھ میں لے کر اس قسم کی وحشتناک فضا کو تعلیمی اداروں میں پیدا کرنا کیا اسلام کی تعلیمات ہیں۔
آئیے رسالت ملتے ہی اہل مکہ کی جانب سے جس طرح طنز کے تحقیر کے ظلم کے تیر آپ پر چلائے جاتے تھے اس کا جائزہ لیں ٬ آغاز نبوت کے ابتدائی دور میں جب حکم ہوا کہ اب وحی کو لوگوں تک پہنچایا جائے تو کفار مکہ کے اطوار ہی تبدیل ہو گئے وہی زبانیں جو پیارے نبیﷺ کو صادق امین اور نجانے کون کون سے احترام کے ناموں سے یاد کرتی تھیں یکلخت اللہ کے واحد ہونے کے بیان سے آپﷺ کے خلاف ان کی زبانیں زہر اگلنے لگیں۔
کسی نے آپﷺ سے کہا کہ ابو لہب کی بیوی آپ کے بارے میں انتہائی لغو الفاظ کہتی ہے اور پھر اس نے انتہائی نازیبا ہتک آمیز الفاظ کو دہرایا بھی ٬ قربان جائیں اس صبر اور ضبط کے ٬ آپ نے تحمل سے کہنے والے کے الفاظ سنے اور زیر لب مسکرا کے بولے ٬ یہ کون ہے؟ جس کے بارے میں یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں یہ مجھے تو نہیں کہا گیا کیونکہ میں تو محمد ﷺ ہوں ٬ اللہ کا نبی اور پیغمبر ٬ یہ تھی پہچان اپنے منصب کی معرفت دیکھیں اپنے مقام کی اپنے درجات کی بلندی کی کون کیا کہتا ہے ذرا برابر پرواہ نہیں تھی کیوں؟ اس لئے کہ جانتے تھے کہ ذات کی صفات کی بلندی اس قدر ہے کہ زمین پر حق پر آنے والے ان کے چند ساتھی تو اُن پر درود بھیجتے ہیں مگر سبحان اللہ آسمان کی بلندیوں پر خالقِ کائنات مالک حقیقی اپنے نبیﷺ پر درود فرشتوں کے ساتھ پڑہتا ہے ٬ اتنی بڑی سراج و منیر بیان کی گئی ہستی کی عظیم سعادت قرآن پاک میں یوں بیان کی گئی کہ الاحزاب آیت 53 اللہ اور اُس کے ملائکہ نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔
اے لوگو!!! تم بھی اِن پر درودبھیجو٬ پھر بھلا وہ زمین کے کسی چھوٹی سوچ والے انسان کی سوچ سےوہ کیوں گھبراتے کہ کسی کے کچھ کہنے سے ان کے رتبے میں خدانخواستہ کمی آ سکتی ہے؟ سیرت النبیﷺ کا مطالعہ آپ کے خود ساختہ دین کو ختم کر کے سچا حقیقی دین قرآن کے بیان کے مطابق آپکو دکھاتا ہے اور آپ کی سوچ کو عمل کو توازن دیتا ہے ٬ افسوس کہ ہم نے””حب نبیﷺ”” کا نعرہ تو بلند کیا مگر ان کی تعلیمات کو سمجھنے سننے کیلئے خود کو کوئی وقت نہ دیا ٬ جس کا المناک انجام سامنے آ رہا ہے جس کو جو سوچ اچھی لگتی ہے وہ دین کا نام لے کر انتہائی رویے سے اس پر عمل پیرا ہو کر اسلام کو کئی گروہوں کئی شاخوں میں بانٹ کر ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں٬ زندگی جہالت کی چکاچوند میں گزارنے والے کفار کو جب اللہ واحد لا شریک کا سادہ آلائش سے پاک پیغام آپکے ذمہ ہوا تو سوچیں کیا کیا نہ کیا ہوگا ان عیاش مالدار رعونت غرور کے اکڑے ہوئے مجسموں نے ٬ جبکہ آپ کے پاس چند افراد ساتھیوں کے طور پے تھے اور سامنے امرائے وقت کا بے قابو ہجوم جو اپنے خود ساختہ بتوں کے سامنے کسی کو سننا نہیں چاہتے تھے۔
Mishal Khan
آپ کی ہستی مبارک کیلئے کونسا سانحہ تھا جو رونما نہ ہوا ٬ کونسی تضحیک تھی جو انہوں نے نہ کی ٬ سال بھر خود تکالیف کے نئے نئے باب رقم کرتے کبھی اوجھری نماز کے دوران پھینکتے تو کبھی راستے میں کانٹے بچھا دیتے ٬ کبھی ہمسایہ میں رہنے والا رشتہ دار پکتے ہوئے سالن میں گندگی پھینکتا ٬ حتیٰ کہ حج کے موقعہ پر پوری دنیا سے آئے ہوئے قافلوں کو آپ کے بارے میں ایسی ایسی افسوسناک باتیں کہی جاتیں کہ کوئی عام انسان ہوتا تو نجانے کتنے فساد اور کتنے جنگ و جدل ہو چکے ہوتے۔
اس وقت آپﷺ نے ہر بری بات کا برے فعل کا جواب لڑائی جھگڑے سے نہیں بلکہ حِلم بردباری اور حکمت سے صبر کے ساتھ دیا ٬ ان کی ذات کے فضائل کیا میں بیان کر سکتی ہوں یا آپ ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا رٹی رٹائی کتب کی لائینیں تو لکھی جا سکتی ہیں مگر ان کی عظمت کا ان کی صفات کا ذکر وہ بھی ہم جیسے ناچیز بندے کر ہی نہیں سکتے کوشش البتہ جاری و ساری ہے ـ حالیہ یونیورسٹی میں ایک طالبعلم کی اندوہناک موت اور وجہ توہین رسالت نے مجھے کچھ لکھنےپر مجبور کیا ٬کوئی دیسی بدیسی ٬ گورا یا کالا ٬ عربی یا عجمی اگر کبھی کسی جنون کے زیر اثر ہو کر آپﷺ کی ذات اقدس پر کچھ کہتا بھی ہے تو کیا ہم سب چراغپاہ ہو جائیں اور بدلے میں ایسے انداز کو اپنائیں جو کسی بھی طرح سے مومن کی شان نہیں ہے۔
ابھی معاملہ واضح نہیں ہے کہ درحقیقت یہی معاملہ تھا یا اندر کوئی اور رنجش تھی جیسی کہ بالعموم پاکستان میں کیا جاتا ہے٬ اس نبیﷺ کے امتی جن کا صبر بے مثال جن کا مرتبہ بلند و بالا کسی کی گندی نجس زبان سے نکلے کلمات سے ان کی شان پر کیا فرق؟ ان کے نام کی عظمت پر لاکھوں کروڑوں مر مٹنے کو لمحہ بھر سے پہلے تیار ٬ ایسے نبیﷺ کی ذات ہر نجس منحوس بد زبانی بالکل مُبراء ہے ـ جس مبارک ہستی کی وجہ سے کائنات کے اسرار کو باقاعدہ ترتیب دے کر طویل و عریض سلسلہ نبوت چلایا گیا۔
نجانے کتنی امتوں کے ذکر کو محض آپ تک پہنچانے کیلئے اس خالق نے تخلیق کیا ٬ کسی کو پتھروں کے عذاب سے سزا دی تو کسی کو مینہ برسا کر دیکھتے ہی دیکھتے خواب و خیال کر دیا ٬ کہیں زلزلے کی ایک ہی ہولناک چنگھاڑ نے انسانوں کو جامد و ساکت کر کے عبرت کا نشان بنا دیا ٬ جس نبی کی تخلیق قوموں کے صدیوں پرانے آتشکدوں کو بجھا دے ٬ کیا شان ہے انکی؟ جس کی آمد مبارک شام کے محل کے کنگرے گرا دے کیا مقام ہے ان کا ؟ جس کی پیدائش دنیا میں نور کا ہالہ ماں کو دکھا دے کیا مرتبہ ہے اس ہستی کا؟ہمیں بطور امتی یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے نبی کی شان کا فیصلہ اور پُکار”” درود”” کی صورت آسمان پر رب العزت فرشتوں کے ساتھ فرما رہا ہے۔
ایسے مقام والے نام کو کوئی بھی انسان جس کو اپنے اگلے پل کا علم نہیں وہ ان کی قدر و قیمت مقرر کرے گا؟ ہرگز نہیں سوچ کو صبر میں ملفوف کریں ذہن کو طاقتور سوچ دیں ٬ جن کا ذکر رہتی دنیا تک زمین و آسمان میں گونجنا ہے اسے کوئی ناشکرا کوئی کج فہم کیسے کم کر سکتا ہے ٬ قوموں پر زوال کا باعث ان کے رویوں میں عدم برداشت کا فقدان ہے جزباتی ہونا وہ بھی دین پر نبی کی شان پر اللہ کی عظمت پر ہر مومن کا حق ہے۔
مگر انداز میں ٹھہراؤ دلیل اور سوچ و بچار کا عنصر از حد ضروری ہے٬ ر سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس نبیﷺ کیلئے اللہ کے گھر کی تعمیر کئی بار ہوئی جن کی آمد کی دعا دعائے خلیل (حضرت ابراہیم ) نے ساڑھے چار ہزار سال قبل کی ہو ان کی آمد کے انتظامات نجانے کب سے جاری تھے اور ان کا ذکر کب تک رہنا ہے۔
ان معاملات میں ہماری ناقص کوششیں کیا کر سکتی ہیں ؟ کسی کی مجال نہیں جو شان رسالت میں رائی کے دانے برابر کمی لا سکے یہ فیصلہ تو اللہ پاک نے محفوظ کر رکھا ہے ـ ہم نے اس (قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں قرآن کیا ہے؟ میرے پیارے نبیﷺ پر اترا جانے والا آخری پیغام الہیٰ جب وہ محفوظ ہے تو اس میں ذکر نبیﷺ خود بخود محفوظ ہے ٬ کتاب کو کئی بار جلایا گیا مگر حفاظ کے سینوں میں محفوظ یہ مبارک کلام پھر سے نور بن کر دنیا میں اجالا کرنے کیلئے لفظوں کی صورت ہم تک پہنچ رہا ہے۔
ڈر کس بات کا ہے؟ خوف کیوں ہے؟ دنیا کی سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتاب “” قرآن پاک “” ہے ٬دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام “” محمد”” ہے٬ تِلملانا تو منافقوں کو کافروں کو چاہیے ٬ 2050 تک ایک مستند تحقیق کے مطابق اسلام دنیا کا تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن جائے گا۔
یاد رکھیں جس کا ذکر بلندیوں پر ہو رہا ہے زمین والے ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں الحمد للہ جو لوگ جانے انجانے جدت پسند بننے میں آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کر کوئی بھی معیوب حرکت کر چکے ہیں ان کیلئے اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ “””اے ایمان لانے والو!!! اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو٬ اللہ تمہارے اعمال درست کردےگا٬ اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا ٬جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
توبہ کا دروازہ موت سے پہلے تک منتظر ہے ہر اس انسان کیلئے جو رجوع کا خواہشمند ہے ٬ پلٹ آئیں اور استغفار کی کثرت کے ساتھ اپنے مالک کو منا کر اس کے حبیب ﷺ پر دل کی گہرائیوں سے درود کے تحفے بھیجیں ٬اسی میں غلطی کرنے والوں کیلئے عافیت ہے بخشش ہے اور انعام ہیں ٬۔ ہم سب نے نگاہ صرف آپﷺ کی بڑہتی ہوئی مقبولیت پر قائم کرنی ہے ٬۔
دین کے پھیلاؤ کا مظہر یہ پیارا نام جلن میں حسد میں دشمن جیسے بھی لیں ٬ جب بھی کوئی ایسی پریشان کُن بات سنیں جو شان رسالت کے حسد میں کہی جائے اُس وقت ہمیں مومن کی اعلیٰ مثال بننا ہے اور وہی کہنا ہے جو اس موقعہ پر آپﷺ نے کہا تھا ٬ کہ یہ لغو باتیں کس کیلئے ہیں؟ یہ ہمارے پیارے نبیﷺ کیلئے نہیں ہیں وہ تو اللہ کے نبی ہیں وہ تو محمد يﷺ ہیں٬ ہم سب نے عمل سے خود کو با اعتماد باوقار باہمت دکھانا ہے مشتعل ہونا بہادری نہیں ہے٬کیونکہ