تحریر : علی عمران شاہین پاکستان میں ان دنوں تین چار افراد کے اچانک” لاپتہ ”ہونے کا قضیہ گرم ہے۔ ان افراد میں سب سے نمایاں پروفیسر سلمان حیدر نامی شخص ہے جو اسلام آباد کے کسی ادارے میں پڑھاتا بھی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ اور دیگر ”لاپتہ افراد” انٹرنیٹ پر مختلف بلاگز اور ویب پیجز چلاتے ہیں۔ ان افراد کے” لاپتہ ”ہونے کے بعد جب چار شہروں میں چند لوگوں نے مظاہرے کئے تو اپوزیشن (جسے بنایا ہی حکومت کے ہر اچھے برے کام کی مخالفت کیلئے جاتا ہے) نے حکومت کے لتے لینا شروع کر دیئے کہ حکومت نے ہی ان افراد کو لاپتہ کیا ہے، لہذا وہی انہیں فوری طور پر بازیاب کرے۔ اب یہ افراد کہاں ہیں؟ ابھی تک تو اس کا کوئی علم نہیں، اور ہو سکتا ہے کہ ان کا یوں اچانک غائب ہو جاناکہیں کسی ایسے سلسلے کی کوئی کڑی نہ ہو جس کے تحت ایک سابق گورنر، سابق وزیراعظم او رسابق چیف جسٹس کے بیٹے پہلے ”لاپتہ” پھر مبینہ طور پر ”اغوا” ہوئے اور ایک ایک کر کے پھر سبھی واپس گھروں میں پہنچ گئے۔ حیران کن پہلویہ ہے کہ عام لوگوں کے بچے تو بھاری تاوان دینے کے بعد بھی اغوا کے ساتھ ہی چند روز کے اندر اندر قتل بھی ہو جاتے ہیں جبکہ یہ سبھی بغیر تاوان دیئے طویل عرصہ بعد بھی چھوٹ کر گھروں میں پہنچ گئے۔ ان مغویان کی واپسی ان کے خاندانوں اور دیگر لوگوں کی طرح ہمارے لئے بھی فرحت کا ہی باعث ہے لیکن اس حوالے سے اصل حقیقت میں تو قوم کے سامنے آنی چاہئے کہ اغوا ء میں یہ فرق کیو ں ہے؟ موجودہ لاپتہ ہونے والے افراد کے حوالے سے کچھ بھی ہو۔
حکومت پر حملہ آورہونے سے پہلے ضروری ہے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر حقائق جان لیئے جائیںکہ یہ افراد آخر کہاں ہیں؟ حد تو یہ ہوئی کہ جیسے ہی ان افراد کے ”لاپتہ” ہونے کی خبریں ملک سے باہر نکلیں ، امریکی محکمہ خارجہ اور برطانیہ نے بھی تشویش کا اظہار کرنے میں ذرا تامل یا تاخیر نہیں کی۔ اس اظہار ”تشویش” کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وضاحت کی کہ لاپتہ افراد میں سے صرف پروفیسر سلمان حیدر کے حوالے سے انہیں اطلاع ہے کہ وہ غائب ہے، باقی کی بات ہی تاحال درست نہیں۔کچھ بھی ہو، اس موقع پر اپنے ملک کے سیاستدانوں اور دیگر رہنمائوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ اب اپنے ملک کے معاملات میں امریکہ و برطانیہ کی اس کھلی مداخلت اور ہرزہ سرائی پر بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا آج تک امریکہ یا برطانیہ یا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں بھی کبھی کوئی لاپتہ نہیں ہوا ،اور اگر ہوا ہے اور یہ ہر ملک کے روزمرہ معاملات کا حصہ ہے تو کیا پاکستان نے کبھی ان ملکوں کے معاملات میں دخل اندازی کی کہ وہ اِن ملکوں سے ِان کے شہریوں کے بارے میں پوچھتا پھرے۔ امریکہ ہو یا برطانیہ یا دیگر قوتیں، انہیں لاپتہ افراد کے قضیئے سے پہلے منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی اوقات اور اپنی حدود میں رہیں۔ وہ طاقتیں جنہیں گزشتہ چھ ماہ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں بہنے والا بے گناہوں کاخون، ڈیڑھ ہزار معصوم بچوں کے آنکھوں سے محروم چہرے، جیلوں میں پہنچنے والے 15ہزار کشمیری بچے، بوڑھے اور عورتیں دکھائی نہیں دے رہے، انہیں پاکستان میں دو تین لوگوں کے کسی بھی طرح سے اچانک غائب ہو جانے پر اس قدر تشویش و پریشانی کیوں ہے؟۔
دنیا کا وہ کون سا کونہ یا ملک یا حصہ ہے جہاں دن رات مسلمانوں کا بدترین طریقے سے خون نہیں بہایا جا رہا، خود امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ بھی متعصبانہ و دشمنانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ان کی مساجد کو روز نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن یہاں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ حق بات یہ ہے کہ ملک کا کوئی طبقہ ہو، اسے اس طرح کی غیر ملکی مداخلت کا ڈٹ کر جواب دینا چاہئے۔ لاپتہ یا غائب افراد کے بارے میں اب پتہ چل رہا ہے کہ یہ لوگ عرصہ دراز سے سوشل میڈیا پر بدترین توہین رسالت اور بدترین توہین مذہب کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور پاک وطن کے خلاف انتہائی مذموم مہم چلا رہے تھے۔ ان کے” لاپتہ” ہو جانے کے بعد وہ مہم اچانک رک تو گئی ہے لیکن ان لوگوں کا پتہ لگنا بھی بہت ضروری ہے،ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں اور ان کی سرپرست ملکی و بیرونی ملک کی لابی نے ہی کوئی ایسا کھیل نہ کھیلا ہو اور پاکستان پر عالمی دبائو ڈالوانے کے لئے ناٹک نہ رچایا ہو۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کا احتمال نہ ہو کیونکہ ہمارے ملک میں ایسے تماشے اور ڈرامے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہے ہیں۔
Nisar Ali Khan
دریں اثناء وزیر داخلہ نے ملک کے اندر کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے بھی اپنے وضاحتی بیان میں کلمہ حق کہا ہے جس پر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں ”فرض منصبی” ادا کر رہی ہیں۔ وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ دہشت گرد اور فقہی اختلاف پر بننے والی فرقہ وارانہ تنظیموں میں فرق ہونا چاہئے، اس کے لئے الگ قانون سازی ہونی چاہئے، اور یہ کہ دہشت گردوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہئے، انہیں سزا دلانے کے لئے تیز رفتار نظام قانون لایا جا رہا ہے، ہر محب وطن پاکستانی کی دل کی آواز ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کا کوئی بھی شہری کسی بھی نوعیت کے جرم کرے، اسے فوری اور قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے۔ ہر مجرم کو اس کے کئے کی سزا ملنی چاہئے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہئے کہ وہ محب وطن لوگوں اور سماج و وطن دشمنوں کے حوالے سے بھی الگ، واضح اور کھلی پالیسی کا اعلان کرے۔ پاکستان میں جب کالعدم تنظیموں کے حوالے سے نائن الیون کے واقعہ کے بعد ریاست متحرک ہوئی تھی ، اس وقت حالات بالکل مختلف تھے۔ پاکستان پر عالمی دبائو بہت زیادہ تھا اور امریکہ افغانستان پر حملہ کر چکا تھا۔ نائن الیون کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، امریکہ پاکستان کا مخالف ہوتا چلا گیا اور پھر امریکہ اور بھارت بھی ایک ہوتے چلے گئے۔
پھرہر گزرتے دن بھارت نے امریکہ کو نئی سے نئی پٹی پڑھانی شروع کی اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے لئے اپنی گردنیں کٹوانے اور لخت جگر پیش کرنے والے مقامی کشمیری تنظیموں حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ وغیرہ کو بھی امریکہ نے دہشت گرد قرار دینا شروع کر دیا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر روایت یوں قائم ہوئی کہ جس کسی نے بھارت یا امریکہ کے خلاف زبان کھولی، اسے بھی اسی لپیٹ میں لایا جانے لگا۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ پاکستان میں 63ملکی کالعدم تنظیمیں ہیں، جن کے نام بدل کر کام کرنے پر بھی پابندی ہے۔کمال حیرت کہ ملک میں ایک ایسی سیاسی تنظیم (نیپ سے اے این پی بننے والی) بھی ہے جس نے کالعدم ہونے کے بعد 40سال سے اپنا نام تبدیل کیا ہوا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا۔ اگر انہوں نے نئی پالیسی واضح کرنے کا عندیہ دیا ہے تو اس میں محب وطن اور وطن دشمن عناصر کو بھی الگ الگ کیا جائے اور ملک کی وہ تنظیمیں اور جماعتیں جو کسی قسم کی دہشت گردی، فرقہ واریت، سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث نہیں یا عوام کو کسی بھی طرح سے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
لیکن ملک و ملت سے وفاداری یا مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے باعث انہیں عالمی طاقتیں مجرم قرار دیتی ہیں تو انہیں محض دشمنوں کے دبائوکی وجہ سے پابندیوں یا جکڑ بندیوں کا نشانہ نہ بنایا جائے اور ان کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ ان کی وفاداری اور وفا شعاری کو پیش نظر رکھ کر انہیں ملک کے دفاع میں شامل رکھاجانا چاہئے۔ کافر طاقتوں کی بدمعاشی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہر مخالف کو مکمل دبانے اور ختم کرنے کے لئے اقوام متحدہ جیسے ناپاک ادارے قائم کر رکھے ہیں جو مسلمانوں کا تو کوئی مسئلہ حل تو کجا ،زیربحث بھی نہیں رکھتے لیکن مسلمانوں کو قانونی طور پر مارنے کے لئے ہر وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ پاکستان کو اس حوالے سے اندرونی طور پر اپنے محب وطن طبقات کے دفاع کے لئے بھی قائدانہ رویہ اپنانا اور سامنے لانا ہو گا۔