میڈرڈ (اصل میڈیا ڈیسک) ہسپانوی پولیس نے یوروپول کے ساتھ مل کر ایک بڑے مشترکہ آپریشن میں پاکستانی تارکین وطن کو یورپی یونین میں لانے والے اسمگلروں کو ایک گروہ کو پکڑ لیا۔ اس گروہ نے مبینہ طور پر سینکڑوں پاکستانیوں کو یورپی یونین میں پہنچایا۔
اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پولیس نے بتایا کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والےا س گروہ کے ارکان جان کے لیے خطرہ بن جانے والے حالات میں پاکستانی شہریوں کو یورپی یونین کے حدود کے اندر تک پہنچاتے تھے۔
اس آپریشن میں ہسپانوی پولیس کے ساتھ تعاون کرنے والے یورپی پولیس ادارے یوروپول کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسمگلروں کا یہ گروہ یورپی یونین سے باہر یورپ کی بوسنیا جیسی ریاستوں سے پاکستانی تارکین وطن کو اٹلی اور اسپین پہنچانے کا کام کرتا تھا۔
اس آپریشن میں آٹھ یورپی ممالک کی پولیس نے حصہ لیا۔ اس دوران کروشیا کی پولیس نے ایک ایسے ٹرک کو روک لیا، جس میں صرف آٹھ مربع میٹر یا 86 مربع فٹ کی جگہ تھی مگر اس میں 77 پاکستانی تارکین وطن سوار تھے۔
ہسپانوی پولیس نے اس آپریشن کے بعد اپنے بیان میں کہا، ”ان پاکستانی تارکین وطن میں چار نابالغ افراد بھی شامل تھے اور وہ سب کے سب کھچاکھچ بھرے ہوئے اس ٹرک میں انتہائی غیر انسانی حالات میں سفر میں تھے۔‘‘
بیان کے مطابق اس ٹرک میں سوار افراد کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ سانس بھی نہیں لے سکتے تھے۔ اس لیے اس ٹرک کی چھت میں کئی چھوٹے چھوٹے سوراخ کیے گئے تھے، تاکہ یہ بیسیوں افراد سانس تو لے سکیں۔ ہسپانوی پولیس کے مطابق، ”اگر ٹرک کی چھت میں کئی چھوٹے چھوٹے سوراخ نہ کیے گئے ہوتے، تو اس پولیس آپریشن کے نتیجے میں سامنے آنے والی صورت حال انتہائی المناک ہوتی۔‘‘
یوروپول نے، جو یورپی یونین کا قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے، اپنے بیان میں مزید کہا کہ یہ اسمگلر یونین میں داخلے کے خواہش مند پاکستانی تارکین وطن کو انتہائی پرخطر حالات میں گاڑیوں، ویگنوں اور ٹرکوں میں سوار کرا کے یورپی یونین کے اٹلی اور اسپین جیسے ممالک میں لاتے تھے۔ ”ان تارکین وطن کو اکثر کئی کئی دنوں تک کھانے ہینے کی بہت ہی کم یا سرے سے کوئی اشیاء دستیاب ہی نہیں ہوتی تھیں۔‘‘
یوروپول نے بتایا کہ اس سفر کے لیے انسانوں کے اسمگلروں نے ہر مسافر سے اسے یورپی یونین میں پہنچانے کے لیے پانچ ہزار سے لے کر آٹھ ہزار یورو (5800 سے 9200 امریکی ڈالر کے برابر) تک رقم وصول کی تھی۔
اسپین میں ریاستی دفتر استغاثہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے اس گروپ نے حالیہ مہینوں کے دوران اس طرح ‘کم از کم 400 تارکین وطن‘ کو یورپی یونین میں پہنچایا اور یوں اس کام کے عوض دو ملین یورو (2.3 ملین ڈالر) سے زائد کی رقوم حاصل کیں۔
یوروپول نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن کو یورپ اسمگل کرنے والے مجرموں کا اسپین سے کام کرنے والا یہ گروہ گزشتہ کئی برسوں سے فعال تھا اور اس نے جن تارکین وطن کو یورپی یونین میں اسمگل کیا، ان کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اسمگلروں کے جس گروہ کو اس آپریشن کے نتیجے میں ناکام بنا دیا گیا، اس کے سربراہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس آپریشن سے پہلے کافی عرصے تک جو چھان بین کی گئی، اس میں یورپی یونین کے رکن سات ممالک کے علاوہ بوسنیا ہیرسے گووینا کی پولیس نے بھی حصہ لیا۔
اس عمل میں شریک ممالک کو یورپی یونین کے عدالتی ادارے یوروجسٹ (Eurojust) کا تعاون بھی حاصل تھا۔
اسپین اور کروشیا کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ اس کارروائی کے دوران پولیس نے مجموعی طور پر 15 افراد کو حراست میں لیا۔ ان میں سے 12 مشتبہ ملزمان کو اسپین سے گرفتار کیا گیا جبکہ باقی تین ملزمان ایک ایک کر کے کروشیا، سلووینیہ اور رومانیہ سے حراست میں لیے گئے۔
انسانوں کے اسمگلروں کی طرف سے بڑی رقوم کے بدلے غیر یورپی تارکین وطن کو یورپی یونین تک پہنچانے کا عمل کتنا خطرناک ہے، اس کا ایک ثبوت اکتوبر 2019ء میں پیش آنے والا ایک واقعہ بھی تھا۔ تب منجمد اشیائے خوراک لے کر برطانوی دارالحکومت لندن سے جانے والے ایک کارگو ٹرک سے 39 ایسے تارکین وطن کی لاشیں ملی تھیں، جو سب کے سب ویت نامی شہری تھے۔