ہم پاکستانی بھی بڑے عجیب لوگ ہیں …؟جو پلّے درجے کے بے وقوف ہوکر بھی دوسروں کو بدعقل ، بدتمیز اور بیوقوف سمجھتے ہیں..حالانکہ ایسی اوربھی بہت سی خامیاں ہم میںدرجہ بدرجہ موجودہیں،اگرابھی جنہیں میں گنوانے بیٹھ جاؤں تو میراساراکالم ہی اِسی پر ختم ہوجائے اور میں وہ نہ لکھ سکوں آج جو میں لکھناچاہتاہوں۔ بہرحال …!ہماری ایک سب سے بڑی خامی یہ بھی ہے کہ ہم اپنااحتساب کرنانہیں چاہتے ہیں،اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکناگوارہ نہیںکرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جتناوقت ہم اپنے عیب تلاش کرنے میں لگادیں گے اُتنے ہی وقت میں ہم سامنے والے کے کئی عیبوں کو دوسروں تک پہنچادیںگے،اَب ایسے میں ذراسوچوکہ جب ہماری ایسی منفی سوچ ہوجائے توپھر بھلاکون ظالم ہوگا…؟جو اپنے ہی گربیان میںجھانکے اور خود ہی اپنے عیبوں کو دوسروں کے سامنے روشناس کرائے۔
سُو…! آج مجھ سمیت میری ساری پاکستانی قوم اِس راستے پر چل رہی ہے جس پرچل کر ہم نہ تو خود کو سنبھال پارہے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو اچھائی کا موقعہ فراہم کرنے پر آمادہ نظرآتے ہیں ،بلکہ آج تو حدیہ ہے کہ ہم دیدہ ودانستہ اپنی اچھوتی اور غیراخلاقی حرکتوں سے معاشرے کو منفی سوچ اور منفی راستوں کی جانب لے جارہے ہیں،اَب ایسابھی نہیں ہے کہ ہم اپنی اصلا ح نہیں کرناچاہتے …؟مگر کیا کریں…؟آج افسوس ہے کہ ہم مجبورہیںکیوں کہ ہم خوداپنی اصلاح کرنے سے قبل سامنے والے کو دیکھتے ہیں، اور اِس سے اپناموازانہ کرتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ کیامیں نے معاشرے اور مُلک اور خودکو سنبھالنے کاکوئی ٹھیکہ تونہیں لے رکھاہے …؟کیاایک میرے ٹھیک ہونے سے معاشرہ اور مُلک ٹھیک ہوجائے گا…؟اور اِس پر خودہی یہ تاویلیں بھی پیش کرتے پھرتے ہیں کہ جب تک میراسامنے والاٹھیک نہیں ہوگاتونہ میں ٹھیک ہوں گااور نہ معاشرہ اور مُلک درست سمت میں گامزن ہوسکے گااور پھرروزانہ میںاور میری قوم کا ہرفرد یہ سوچ کر اُسی ڈگرپر چل پڑتے ہیں جو ہمیں پستی اور گمانی کی جانب لے جارہاہے۔
جبکہ اکثرمیں سوچتاہوں کہ آخرہم کب تک ایساکرتے رہیں گے..؟اور کب ہم پہلے خودکو سُدھرانے کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کریں گے..؟اور کب ہماری قوم میں ایسی مثبت اور تعمیری سوچ پیداہوگی کہ ہم عملی طور پر کسی مثبت سوچ وعمل کا مظاہرہ کرکے اپنے معاشرے اور مُلک کو دُرست سمت میں لے جانے کا عزم کریں گے..؟مگرجب میں اپنے اور اپنے کسی دوسرے (خواہ حکمران ہوں ، سیاستدان ہوں، قومی اداروں کے سربراہاں ہوں یا کوئی عام پاکستانی شہری ہو ) کا ہاتھ اور اِس کے ہاتھ میں موجودآڑی ٹیڑھی تِرچھی اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر کی جانب آتی جاتی لکیروں کو دیکھتاہوں تومجھے ایسالگتاہے کہ جیسے مجھ سمیت میری قوم کے ہاتھوں کی لکیروں میں عقل مندی،ہوش مندی ،مثبت سوچ اور اجتماعیت کے فوائد والی لکیرہی نہیں ہے، اور اگر ہے تو یہ کہیں گم ہوکررہ گئی ہے تو ایسے میں مجھے یہ محسوس ہوتاہے کہ جیسے دنیاکی دیگر قوموں کے ہاتھ میں پائی جانے والی اچھائیوں کی لکیروں کی جگہہ میری قوم کے ہاتھ میں ”بے وقوفی، بدعقلی ، مکاری، جھوٹ وفریب اور دھوکہ دیہی ، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت گری، دہشت گردی،اقرباء پروری اور مارکٹائی” کی لکیروں کا جیکشن موجود ہے، جو مجھ سمیت کسی کو اِن بدی اور گمانی کے راستوں سے نکلنے ہی نہیں دیتاہے، ہم نکلنابھی چاہیں تو گھوم پھر کر دوبارہ اُسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے فرارکا راستہ ڈھونڈھاتھایا پھر خودیہ راستے ہماراپیچھاکرتے ہوئے ہمارے دل ودماغ میں آن گھستے ہیں اور یوں ہم اپنی سوچ اور خواہشات کو بدی کے سانچے میں ڈھال کر اپنے معاشرے اور مُلک میں ہرقسم کی بدی اور بداخلاقی کا عملی مظاہرہ کرتے پھرتے ہیں۔
Plato
افلاطون کا کہناہے کہ ہر شخص عقل وفراست رکھتاہے مگرہر شخص عقل وفراست سے کام لینانہیں چاہتا” آج بدقسمتی سے میں اور میری قوم افلاطون کے کہے پر پورااُتررہے ہیں،حالانکہ ہم اپنی عقل وفراست کو بروئے کارلائیں تواپنے تما م مسائل کا حل نکال سکتے ہیں،عقل اور فہم وفراست سے متعلق اہلِ علم کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوہاصرف لڑائی کے وقت سونے سے بہترسمجھاجاتاہے مگر عقل ہر جگہہ اور ہر وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔سوآج میرے مُلک کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور قومی اداروں کے سربراہاں اورمیری جذباتی قوم کے ہر فرد کوعقل وفراست کا استعمال کرتے ہوئے،آج بس ایک مرتبہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کا بغورموازانہ کرناہوگا،اور اپنے ہاتھ میں موجودعقل وفراست کی لکیرکو تلاش کرناہوگا،آج اورابھی ہم سب کواپنے کسی ذاتی فائدے اور ذاتی اناکے خول سے نکلناہوگا اور اپنے اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر پرویزمشرف کی رہائی سمیت مُلک کو دہشت گردی اورتوانائی کے بحرانوںاور خارجہ پالیسی جیسے درپیش دیگر مسائل کے حل کے لئے مصالحتاََ صحیح مگراپنا اپناکرداراپنی اپنی عقل وفراست سے اداکرناہوگا، تاکہ ہم سے وہ کام ہوجائے جس سے مُلک میں جمہور اورجمہوری عمل پروان چڑھے اورمُلک ایک دُرست سمت میں ترقی کرے اور اِس کی معیشت مستحکم ہو،ورنہ یہ یاد رہے
آج ہماری بدعقلی ،ہماری بے وقوفی اور ہماراذراساجذباتی فیصلہ اچھی بھلی جمہوری بساط کو پلٹ سکتاہے اور حکمرانوں کے پچھلے دِنوں (مشرف سے متعلق )کئے جانے والے ایک فیصلے کی وجہ سے پھر کسی آمر کے ہاتھ میں چھپی آمریت کی لکیراُبھرجائے اور وہ وقت کے کسی آمر کو جمہوراور جمہوریت کے قتل کے لئے اُکسادے اور آمرمجبورہوکر جمہوراور جمہوریت کوایک طرف رکھ کر اپنی آمریت کا جھنڈاگاڑ دے تو سوچوایسے وقت کوجب ایساہوجائے گا تو پھر کیا ہوگا.؟ویسے بھی ہماری 67سالہ مُلکی تاریخ اور قوم کے ہاتھوں کی لکیروں میں آمرکی آمریت زیادہ اور جمہوریت کی عمر کم ہے ۔(ختم شُد)