بی بی سی کی معصوم غلطیاں

BBC

BBC

تحریر : شاہ بانو میر

امریکہ پر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد یورپ میں مقیم مسلمان بہت پریشان تھے
تعلیمی اداروں کا ماحول مسلمان بچوں کے لیے پہلے جیسا نہیں رہا تھا
ماحول میں موجود کھچاؤ تناؤ کو کم کر کے اپنے ملک اور اس کے ماحول کو
قدرے بہتر کرنے کے لیے گورنمنٹ نے
کچھ اہم اقدامات کیے جن کا اطلاق یکساں طور پر سب مذاہب پر کیا گیا
یہ 2004 کی بات ہے فرانس میں تعلیمی اداروں میں مختلف قومیتوں کے بچوں کو مذہبی منافرت سے بچانے
اور علمی ماحول کو پرسکون رکھنے کے لیے حکومت نے یہودیوں کی ٹوپی عیسائیوں کا کراس سکھوں کا کلس مسلمان بچیوں کے اسکارف تعلیمی اداروں کے اندر پہننے پر پابندی لگا دی گئی
نو گیارہ کے بعد تیزی سے دنیا کے حالات بدل رہے تھے
دہشت گردی کی لہر نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا
حکومت کے اس اقدام کو ہر مذہبی سوچ نے سراہا
کہ
بچوں کی زندگی محفوظ ہو گئی
تمام والدین
پراگندہ ماحول کو صاف پرامن بنانے کے لیے حکومتی کوشش کا ساتھ دے رہے تھے
مگر
حجاب پر پابندی کی خبر نے فرانس میں نہیں
مگر ادھوری خبر نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جزبات مجروح کی
اگر مکمل خبر حقائق کے ساتھ نشر کی جاتی تو شائد فرانسیسی صحافیوں کے ساتھ یہ سانحہ بھی رونما نہ ہوتا
اس ادھوری خبر کو سن کر کچھ فرانسیسی صحافیوں کو یرغمال بنایا گیا
اور
حجاب پر پابندی کے خلاف میرا انٹرویو کیا گیا
جس سے بڑے نامور ادارے کے کئ رخ سامنے آئے
صرف حجاب پر پابندی کو خبر بنایا گیا
دیگر مذاہب کا ذکر نہ کر کے عدم توازن پیدا ہوا
جس سے معاملات بگڑے
ایک مسلمان ملک میں کچھ فرانسیسی صحافی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی بجا آوری کے لیے گئے ہوئے تھے
پابندی کی خبر سنتے ہی کسی گروپ نے انہیں اغوا کر لیا
فرانس میں کہرام مچ گیا
بی بی سی اردو سروس سے مایہ ناز نیوز کاسٹر کو میرا نمبر دیا گیا
ان خاتون نے مجھے فون کیا
کہا
میں دس منٹ تک آپکو فون کرتی ہوں
فرانس میں حجاب پر پابندی کے متعلق آپ کی رائے لینی ہے
مسلمانوں کے کیا جزبات ہیں ؟
کچھ دیر بعد نیوز کاسٹر کا فون آیا
سوال کے جواب میں جب ان کو بتایا
کہ
جس زاویے سے وہ بات کر رہی ہیں آواز
ایسا فرانس میں کچھ نہیں ہے
پابندی موجودہ حالات میں بچوں کی حفاظت کے لیے تمام مذاہب پر یکساں لگائی گیی ہے
تا کہ
کسی کو کسی بھی وجہ سے نقصان نہ پہنچے
اوہ
ان محترمہ کی تحیر میں ڈوبی آواز ماؤتھ پیس میں گونجی
قدرے بجھی ہوئی آواز
اندازہ یہ ہوا کہ جس مرچ مصالحے کی وہ عادی ہیں یا ان کا ادارہ وہ توقع پوری نہیں ہوئی
جس کا نمک کھایا ہو اس سے وفاداری کا سبق استادوں نے پڑہایا ہے
بھول نہیں سکتی
دو تین اور سوالات کر کے فون بند کر دیا
قدرے توقف کے بعد
پھر
فون کی بیل گونجی
انگلینڈ کا نمبر سکرین پر بتا رہا تھا
کہ
فون پھر بی بی سی سے ہے
جی
میڈم سوری کچھ ٹیکنیکل پرابلم ہو گیا
ریکارڈنگ کلئیر نہیں ہوئی
ہم دوبارہ انٹرویو کریں گے
آپ سوچ لیجیے کہ آپ کو مزید کیا کہنا ہے
کیونکہ مسلم دنیا کی سوچ اور رد عمل آپ کی سوچ سے الگ ہے
ہمارا خیال تھا کہ آپ اس پابندی پر بطور مسلمان موقف دیں گی
میں نے رسان سے جواب دیا
جب یہاں سب کو ہی دینی شناخت سے روکا گیا ہے
تو آپ بتائیں کہ میں کیسے جھوٹ بولوں
آپ غور کر لیں
جی بہتر
کچھ دیر بعد فون آیا
پہلے جیسا ہی جواب دیا
مرچ مصالحہ لگائے بغیر جو سچ تھا بتا دیا
اس وقت ابھی عبایا زندگی میں نہیں آیا تھا
لہٰذا
حجاب کی اہمیت کا پتہ نہیں تھا
فون بند ہوا
اور کچھ دیر بعد پھر بیل ہوئی
متذبذب محترمہ نے پھر بتایا
کہ
پھف ریکارڈنگ میں مسئلہ ہوا ہے
آپ سوچ لیں اگر کچھ بات میں تبدیلی کرنا چاہیں
وہ جانتی نہیں تھیں کہ
جتنی بار چاہے ریکارڈنگ کا بہانہ بنائیں
یہاں بات تبدیل نہیں ہو گی
الغرض بین القوامی اعلیٰ معیار کے حامل اس نشریاتی ادارے نے شائد چار یا پانچ مرتبہ یہ کہ کر انٹرویو لیا
کہ۔
شائد میں اگلے فون پر فرانس حکومت کو کھری کھری سناؤں گی
میں کچھ غلط کیسے کہ دیتی جب کہ ہمارے بچوں کی جان کی حفاؓظت کے لیے مناسب اقدام تھا
کچھ دیر بعد پاکستان جانا ہوا تو نندوئی بی بی سی بلیٹن ضرور سنتے تھے
انہوں نے میرے انٹرویو کی بہت تدریف کی
اور میری موجودہ حکومت والی مثبت سوچ نہیں حقیقی سوچ کو سراہا
ان کہنا تھا کہ کئی بار انٹرویو چلایا گیا
ایک بات مجھ پر واضح ہوئی
کہ اتنی بار ریکارڈنگ لائیو نہیں ہو سکتی تھی
دوسرا تجربہ یہ ہوا کہ
یہ ادارے اشارة اپنی مرضی کی بات کہلوانا چاہتے ہیں
اسد عمر کے انٹرویو میں سے کلبھوشن کے بارے میں گفتگو حذف کی جا سکتی ہے
کیونکہ
میں تو گھریلو عورت تھی وہ محترمہ نوالہ دے رہی تھیں
اسد عمر کہنہ مشق سیاستدان ہیں
اور
حکومت کے ذمہ دار عہدے پر فائز ہیں
انہیں سوچنے کا کہ کر دوبارہ فون نہیں کیا جا سکتا تھا
اس لیے ریکارڈنگ کا وہ حصہ ہی حذف کر دیا
یہ حال ہے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کا
بی بی سی کی معصوم غلطیاں
ہم پاکستانیوں کے ساتھ ہی کیوں؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر