مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز کی دعوت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی رائے ونڈ آمد کے بعد ملاقات میں اتفا ق پایا گیا کہ ملک ہر شعبہ زندگی زوال کا شکار ہے اور آسے اقتصادی تباہ حالی کی گہری دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے ۔ معیشت کے تمام اعشا ریے شدید بحران کی طرف جا رہے ہیں ۔ پاکستان کو عالمی ساہو کا روں کے پاس گروی رکھ دینے اور قومی ادارے غیروں کے سپر د کر دینے کے باوجود صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے ۔
دونوں پارٹیوں کے رہنماءوں کی ملاقات میں میں قائم ہونے والے اتحاد کے بارے میں قبل ازوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ماضی کے سیاسی حریفو ں کی نئی نسل نے آج اتحاد کرلیاہے ۔ ماہرین اور میڈیا رپورٹ کے مطابق اس ملاقات میں طے ہونے والے معلامات کا عوام کے مسائل کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ مریم نواز اور بلاول بھٹوزرداری کے خاندانی جھگڑے اس اتحاد میں اہم رکاءوٹیں پید اکرسکتے ہیں ۔ اس اتحادسے دونو ں پارٹیوں کے اہم رہنماءوں بھی خوش نہیں ۔ دونوں پارٹیوں کے رہنماءوں کے بیانات اور کئی سالوں سے بیمار ، لاچاراور موروثی سیاست کی چکی میں پاکستانی عوام کی چیخیں اس اتحاد کو کامیاب نہیں ہونے دیں گئیں ۔
ہسپتالوں ، تھانوں ، کچہریوں ، عوامی مقامات پر احتجاج ، معاشی طور پر پسماندہ اور سماجی طور پر دھتکارے ہوئے ، 60فیصدپاکستانی روزانہ کی تصویر ہےں ۔ روزانہ ہی اس حقیقت کو ان کہی چیرہ دستیوں ، پابندیوں اور توہین آمیز ناروا سلوک کی کہانیوں سے تقویت ملتی ہے ۔ شاید ان میں سب سے خوف ناک بچیوں سے ناروا سلوک ، ہسپتالوں ، تھانوں ، کچہریوں ، قبضہ مافیا کی داستانیں ہیں ۔ جن کی سرپرستی کا الزام با اثرافرادپر ہے جن میں سابق حکمران سرفہرست ہیں ۔ شاید مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں ان پاکستانیوں کی چیخیں شامل نہیں ۔
گزشتہ 10سالوں میں خصوصاً سند ھ اور پنجاب میں ایڈز، کینسر جسے موذی بیماری سے سینکڑوں بچوں سمیت ہزاروں افراد موت کی آغوش میں جا چکے ہیں ۔ لاتعدادخواتین ، بچے ،مرد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ اس طرح نوجوان لڑکیاں جو جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے شادی کی منتظر ہیں ۔ جن کی تعداد تقریباًایک کروڑکے قریب بتائی جاتی ہے ۔ لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان ڈگڑیاں اٹھائے سڑکوں پرسراپا احتجاج ہیں ۔ یوں 60فیصد عام شہریوں کی دردناک کہانیاں ہیں ۔
بتایا جاتاہے ن لیگ اور پیپلزپارٹی رہنماءوں کے مشترکہ اعلامیہ یہ ہے کہ معیشت کے تمام اعشا ریے شدید بحران کی طرف جا رہے ہیں ۔ پاکستان کو عالمی ساہو کا روں کے پاس گروی رکھ دینے اور قومی ادارے غیروں کے سپر د کر دینے کے باوجود صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے ۔ روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قیمت ،افراطِ زر (مہنگائی) کی بڑھتی ہوئی شرح، دس ماہ میں ریکارڈ قرضوں کے باوجود زرمبادلہ کے کمزور ہوتے ذخائر، سٹاک ایکسچینج کی بحرانی صورت حال ، قومی شرح نمود (جی ڈی پی) کانصف رہ جانا،بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری کا روک جانا، ترقیاتی منصوبوں پر کام کا خاتمہ ، سی پیک کی سست رفتاری ، حکومتی دعووں اور قومی سطح پر چھائی مایوسی و بے یقینی نے پاکستان کو بحران میں مبتلا کر دیا ہے کہ بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ دس ماہ میں دو منی بجٹ دینے کے بعد حکومت کے پہلے قومی بجٹ نے نہ صرف معیشت کے سنبھلنے کے تمام امکانات ختم کر دئیے ہیں بلکہ عام آدمی پر ٹیکسوں اور مہنگا ئی کا نا قابل برداشت بوجھ لاد دیا ہے ۔ غر یب کم آمدنی اور متوسط طبقے کے لوگ ، مزدور ، محنت کش ، کسان اور ملازمت پیشہ افراد کیلئے زندگی مشکل بنا دی گئی ہے ۔ بجلی ، گیس، پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں کئی گنا بڑھا دی گئی ہیں ۔ ملاقات کے دوران چیئرمین نیب کی یک طرفہ انتقامی کاروائیوں اور حکومتی ملی بھگت کے ساتھ اپوزیشن کے ساتھ ٹارگیٹڈ سلوک پر بھی غور کیا گیا ۔
حقیقت تو یہ ہے مسائل کے طوفان میں خاندانی یا سیاسی اتحاد کامیاب نہیں ہوسکتے ،کیونکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنماءوں کی جانب سے عوامی مسائل کے بجا ئے ذاتی معاملات کو ترجیح دیں گئیں ۔ دوسری جانب اس وقت حکومت شہریوں کے بنیادی حقوق کی منظم انداز میں خلاف ورزیاں کرنے والے کےخلاف سخت ترین کاروائی کا اعلان کرچکی ہے،کمیشن کے قائم کے لیے کام جاری ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہسپتالوں ، تھانوں ، کچہریوں ، عوامی مقامات پر احتجاج ، معاشی طور پر پسماندہ اور سماجی طور پر دھتکارے ہوئے عوام کے مسائل حل کے لیے حکومت اور اپوزیشن بیان بازی کے بجائے اپنا اپناکرداراداکرئے ۔