تحریر: محمد رضا برصغیر پاک و ہند پر ہزار سال حکمرانی کرنے والی مسلم قوم فقط سو سال غلامی کے باعث ایک ایسی کمزور اقلیت بن کر رہ گئے جسے ہندو سنگٹھن اور شدھی کی پرتشدد تحریکوں کے ذریعے نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ غلامی کے اندھیروں نے منزل مراد کو فراموش ہی نہیں کیا بلکہ ذہنی پستی نے آزادی و خود مختاری کی خواہش کو بھی دھندلا کر رکھ دیا۔ برصغیر پاک و ہند مسلمانوں کی سینکڑوں مزاحمتی تحریکوں کا مرکز رہا جس میں ملت اسلامیہ ہند کے بیٹوں نے اپنی جانیں تک قربان کیں۔ آزاد وطن کی جدو جہد میں 14 اگست 1947ء کا دن غلامی سے نجات اور اندھیروں میں روشنی کی علامت بن کر ابھرا۔
تاریخ عالم میں یہ دن جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے لئے خوش بختی کا سفر عظیم ہے جس پر گامزن ہو کر ووٹ کی قوت کے ذریعے علیحدہ کشور حسین حاصل ہو سکی۔یہ عظیم الشان معرکہ برصغیر کے مسلم کا ناقابل فراموش کارنامہ بھی ہے جسے بیسویں صدی کا معجزہ کہا گیا جس کے قیام کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے ، مگر ایثار و اخلاص کی پیکر قیادت حضرت قائداعظم کے مدلل موقف پر ڈٹ جانے اور 1946 کے انتخابات میں مسلمانان ہند کاے پاکستان کے حق میں فیصلے کی بدولت ہندو اور برطانوی سامراج کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ یقینا اس آزادی کی قدرو قیمت وہ نسل جان سکتی ہے جنہوں نے غلامی کی ذلت و اذیت برداشت کی ہو۔ظلم و ستم کے پہاڑ اور اپنوں کی لاشوں کے انبار دیکھے ہوں۔ شمع آزادی کو روشن کرنے کیلئے جواں بیٹوں کا لہو اور بیٹیوں کی آبرو شامل ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ یہ آزادی ہمیں انگریز نے طشتری میں سجا کر پیش کی نہ ہی ہندوئوں اور سکھوں نے کسی احسان کی صورت میں عطا کی۔ یہ میرے او رآپ کے نیک سیرت بزرگوں کا قافلہ حریت تھا جوقربانیاں دیتے ہوئے آگ و خون کے دریا عبور کرنے کے بعد منزل مراد بن سکا یوم آزادی کے موقعہ پر ہر سمت جشن کا سماں ہے قوم خوشیاں منا رہی ہے۔ قیام پاکستان کی سالگرہ کے اس موقعہ پر کراچی میں بابائے قوم کا مزار بقہ نور بنا ہوا ہے’ ہمیں پاک وطن کا تحفہ دینے والے عظیم قائد کے مرقد پر خاص و عام حاضری دے کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اس موقعہ پر کراچی میں مقیم ایک خاندان میں انتہائی جذباتی منظر نظر آتا ہے یہ گھرانہ قائداعظم کے نواسے محمد اسلم جناح اور انکی بہن خورشید بیگم پر مشتمل ہے۔
Mazar Quaid
14 اگست کے روز انکی صبح کا آغاز بابائے قوم کے مزار پر حاضری سے ہوتا ہے۔ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ یہ مزار پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں اپنی عقیدتوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اکثر ان کے چہرے پر آنسووں کی جھڑی لگی ہوتی ہے۔ خصوصاً قائداعظم کی نواسی محترمہ خورشید بیگم کو ہم نے رنج و غم کی تصویر بنے دیکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی شہر میں قائداعظم کے مزار کے سائے میں واقع خورشید بیگم کی رہائش گاہ کے باہر انکے 17 سالہ اکلوتے صاحبزادے سکندر محمد علی کو پولیس نے ایک غلط فہمی کی بنا پر تشدد کرکے ہلاک کر دیا۔ 9 جنوری کو پیش آنے والا یہ واقعہ جس نے غریب والدین سے ان کا اکلوتا سہارا چھین لیا بوڑھے ماں باپ کو کسی پل بھولتا نہیں ہے۔
قومی تہوار کا موقعہ ہو یا قائدین کی برسی قائداعظم کے یہ رشتے دار جب بھی انکے مزار پر آتے ہیں انکی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوتی ہیں۔ محمد اسلم جناح کی زندگی بھی اسی طرح دکھ بھری ہے۔ انکی نانی محترمہ جینا بائی اور والدہ شیریں بائی نے لوگوں کے گھروں میں کھانا پکانے کا کام کرکے بچوں کی پرورش کی اسلم جناح ہوش سنبھالتے ہی گھریلو حالات کو دیکھ کر تعلیم کو خیرباد کہہ کر روزگار کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ محنت مزدوری’ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے رہے۔ قائداعظم کے خاندان کے ان افراد پر پاکستان میں جو گزری ہے وہ نہایت المناک ہے۔ تاہم محمد اسلم جناح اور خورشید بیگم یہ دونوں بہن بھائی نہ صرف عزم و ہمت کی تصویر ہیں بلکہ پاکستان کے لئے سراپا دعا ہیں۔
Mohammad Aslam Jinnah
یوم آزادی کے موقعہ پر ہم نے ان سے گفتگو کی ہے۔محمد اسلم جناح نے پاکستان کی سلامتی کی دعاوں سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اللہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو رہتی دنیا تک قائم رکھے۔ میں جشن آزادی کے موقعہ پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ محمد اسلم جناح نے کہا آج پاکستان کے حالات دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔اگر قوم بابائے قوم کے اصول پر عمل پیرا رہتی تو آج ہمارا ملک افراتفری’ تعصب اور دہشت گردی کا شکار نہ ہوتا۔
خصوصاً شہر قائد کے جو حالات ہیں انکی وجہ سے میں رات کو سونے لیٹتا ہوں تو نیند نہیں آتی۔ ذہن میں پرانی باتوں کی بازگشت آتی ہے۔ اسی شہر میں ہم ہر جگہ آزاد آتے جاتے تھے گھر کھلا چھوڑ جاتے تھے لیکن اب دن دیہاڑے لوٹ مار اور قتل و غارت جاری رہتی ہے۔ خورشید بیگم نے کہا ہمارے خاندان نے قائداعظم سے رشتہ داری کی بنا پر کبھی حکومت سے کوئی مطالبہ یا دعویٰ نہیں کیا’ ہماری والدہ شیریں بائی اور نانی جینا بائی کو محترمہ فاطمہ جناح محترمہ اور شیریں جناح قصر فاطمہ میں بلوایا تھا۔ ہماری والدہ کو وہ کلفٹن اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں مگر میرے بھائی اسلم جناح کی نیو کراچی میں ملازمت کی وجہ سے والدہ یہیں انکے پاس رہیں۔ میرے شوہر محمد علی شاپنگ بیگز کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں ہم محنت مزدوری کے ذریعے اپنے اکلوتے بیٹے سکندر کو تعلیم دلا رہے تھے۔
Khursheed Begum
ہمارا بیٹا انٹر کا طالب علم تھا جب 98ء کے رمضان میں سحری کے دوران وہ پراٹھا لینے بازار گیا وہاں محلے کے لڑکوں کا آپس میں جھگڑا ہوا جس میں پولیس آگئی’ میرا بیٹا جو صرف پڑھائی سے غرض رکھتا تھا محلے میں اس کا اٹھنا بیٹھنا بھی نہیں تھا۔ پولیس اسے بھی پکڑ کر لے گئی۔ تین دن ہم اسے ڈھونڈتے رہے۔ تھانے میں اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ میرے جوان بیٹے کی لاش گھر پہنچی۔ اس ناانصافی پر کوئی ہمارا مقدمہ درج کرنے والا نہیں تھا۔ بریگیڈئر (ر) شمس الحق قاضی صاحب ہماری مدد کو آئے اور ہمار ے بیٹے کے قتل کا کیس شروع ہوا۔ کئی سال بعد 2006ء پانچ پولیس والوں کو سزا سنائی گئی انہیں پانچ پانچ سال کی سزا دی گئی تھی مگر وہ سب ضمانت پر رہا ہو کر آزاد گھوم رہے ہیں۔ ہمیں سندھ حکومت کی جانب سے رہائش کیلئے فلیٹ دیا گیا ہے اور وظیفہ مقرر کیا گیا ہے مالی پریشانی دور ہو گئی ہے لیکن بیٹے کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی جوان بچے کا چہرہ دن رات ہماری نظروں میں رہتا ہے۔
مسلم لیگ کی حکومت کہ یہ وہ جماعت ہے جس کے ساتھ قائداعظم کا نام وابستہ ہے۔بے شک افواج پاکستان ہی وہ واحد آئینی ادارہ ہے جس کی حربی صلاحیت و استعداد بھی مثالی ہے اور ڈسپلن پر بھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتی بلکہ افواج پاکستان کا ڈسپلن ہی قومی اتحاد و یکجہتی کی بنیاد بنتا ہے۔ اس کا ہر جوان اپنے سپہ سالار کے اشارے پر دفاع وطن کیلئے جان تک نچھاور کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ خدانخواستہ اسکے ڈسپلن میں کہیں ڈھیل یا کمزوری پیدا ہو جائے تو اس سے ملک کا دفاعی حصار کمزور پڑ سکتا ہے اس لئے افواج پاکستان کا ڈسپلن ہی اس کا خاصہ ہے اور یہ ڈسپلن فوجی قیادت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
جس کی جھلک کورکمانڈرز کے اجلاسوں میں بھی نظر آتی ہے جس میں تمام کورکمانڈر اپنے سپہ سالار کے کسی بھی فیصلہ کے ساتھ یکجہت ہوتے ہیں اس لئے ایسی ڈسپلنڈ آرمی کی صفوں کے اندر قیادت کے ساتھ کسی قسم کی بغاوت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ماضی میں کسی نے ایسی سازش کی تو وہ کورٹ مارشل کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچا۔ افواج پاکستان کے ڈسپلن کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے پورے ملک اور خصوصاً کراچی سے یہ لاقانونیت کا خاتمہ کریں۔ ہزاروں گھروں کے چراغ بجھ چکے ہیں چیف آف آرمی جنرل راحیل شریف مزید خاندان اجڑنے سے بچا لیں۔