انبیاء کی سرزمین فلسطین اور قبلہء اول بیت المقدس پر صیہونیوں کے ناجائز قبضہ کوچھیاسٹھ برس گذر چکے ہیں ۔15مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر پیوست کر رکھا ہے یہ کوئی آج کا قصہ نہیں ہے بلکہ 66 برس سے عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تو دوسری طرف یہ 66 برس ظلم و بربریت وحشت و درندگی کی قدیم و جدید تاریخ سے بھرپور اور سفاکیت کے انمٹ مظاہروں کی پردردو خوفناک کہانیوں کے عکاس ہیں، ان چھیاسٹھ برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہردن قیامت بن کر آیا ہے۔
ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی ،ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے ،گھر بار ،سڑکیں،بازار ،مساجد و عبادت گاہیں ،سکول و مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیاہے،ناجائز ریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے ان چھیاسٹھ برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں،کون سا ظلم ہے ،جو بے گناہ ،معصوم اور مظلوم قرار دیئے گئے ارض مقدس فلسطین کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا،آج فلسطین کی دختران کی عزتوں کی پامالی کا حساب نہیں ،کتابیں اور بیگ اُٹھائے سکول جاتے معصوم بچوں پر بموں کی یلغار اور گولیوں کی بوچھاڑ کے واقعات سے کئی دفتر مرتب ہوچکے ہیں۔
،سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے تعلیمی اداروں میں جانے والے ،والدین کی اُمید ،نوجوانوں کی خون میں اٹی لاشیں اور نوحہ و ماتم کرتی مائوں اور بہنوں کی چیخ و پکار اور نالہ وفریاد کے مناظر دنیا کے باضمیر انسانوں کو ہرروز جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں آج غزہ کے یہ دلدوزمناظر ،خون آشام داستانیں،روح فرسا کہانیاں ،گولیوں سے چھلنی لاشیں، بہتے لہو کی دھاریں یہ اُجڑتے سہاگ ،یتیمی کا لباس پہنے معصوم بچے ،ضعیفی و ناتوانی کے چھینے گئے سہارے یہ تاراج بستیاں ،برباد کھیت و کھلیان،ٹوٹی سڑکیں،اُداس یونیورسٹیاں اور خوف ،وحشت اور ڈر کا چہار سُو راج یہ ایک دن،ایک مہینہ اور ایک برس کا قصہ و کہانی نہیں بلکہ ظلم کی بنیاد پر وجود میں آنے والی صیہونی ریاست کے قیام میں آنے کے بعد سے ایک ہی منظر روز دوہرایا جاتا ہے۔
ہر آنے والا دن ان مظالم میں اضافہ لاتاہے ظلم و زیادتی اورتشدد کی نئی داستان رقم کی جاتی ہے اس قتل و غارت ،سفاکیت و بربادی کے پیچھے دراصل ایک فلسفہ و فکر کار فرما ہے اسی فلسفہ و فکر کے حامل صیہونی یہودیوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنے قبضہ میں کرنے کا پروگرام ترتیب دیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور اپنی بالادستی قائم کر لی۔ جنگ ختم ہوئی تو برطانیہ نے وہ اعلان کیا جسے “اعلان بالفور”کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
Palestine
یہ اعلان 2 نومبر 1917ء کو سامنے آیا اور اس میں سرزمین فلسطین یہودیوں کو بطور قومی و طن عطا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کر گئی جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان 15مئی 1948ء کو کیا گیا ۔ تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ساتھ ہی ظلم و جور اورسفاکیت و بربریت کا یہ سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوجاتا ہے۔
توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں تمام فلسطین پر قبضہ کرلیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا ،یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن، لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی چنانچہ ستمبر 1975ء میں اردن کی شاہی افواج نے یہاں پر مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔
ان کا قتل عام کیا گیا ،اس کے بعد ان فلسطینیوں کو لبنان میں پناہ پر مجبور کر دیا گیا۔اس بھیانک ظلم کو سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے اور اپنے وطن ،گھر اور آبائی سرزمین کے حصول کی خواہش رکھنے والے فلسطینیوں نے استعماری سازشوں کا مقابلہ اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیاں جاری رکھیں ،دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے بہت زیادہ مالی و فوجی امداددی اور ہر قسم کا تعاون کیا حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخا لف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی امریکہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا۔
امریکہ، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیا اس کشمکش میں اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کیئے اور لبنان کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہوگیا۔ یوں تحریک آزادی فلسطین کے بعد مزاحمت اسلامی لبنان نے بھی جنم لیا اور اسرائیل کی توسیع پسندی و تشدد پسندی کے خلاف قربانیوں کی داستانیں رقم کی جانے لگیں۔لبنان میں اسرائیل کو 2006ء کی جنگ میں بری طرح شکست فاش سے دوچار کر کے اس کے غرور اور ناقابل تسخیر ہونے کے پراپیگنڈے کو زائل کر دیا۔
اس سے پہلے بھی لبنان میں امریکی ،فرانسیسی اور صیہونی فوجیوں کے خلاف خود کش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ لوگ دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور فلسطین میں جہادی تحریکوں نے رفتہ رفتہ زور پکڑا اور آپس کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر غاصب یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کیا اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطینیوں کی پتھر سے شروع ہونے والی تحریک غلیل سے ہوتی ہوئی کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کے بعد میزائلوں تک پہنچ چکی ہے۔ 66برس میں فلسطینیوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں ،بارود کی بارش میں ،تاراجی اور بربادی میں ،منافق اور بزدل لیڈروں ،استعماری سازشوں ،خوراک کی قلت، محاصرے ،گھروں سے نکالے جانے اور مہاجر بنا دیئے جانے میں کیسے زندہ رہنا ہے ، اپنی مظلومیت کو اپنی طاقت میں کیسے بدلنا ہے۔
استعمار کے مسلط کردہ حکمرانوں سے کیسے نمٹنا ہے اور استعمار کو کیسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرناہے۔شہادتوں کو کیسے اپنی قوت اور طاقت میں تبدیل کرنا ہے۔درد کو کیسے دوا بنانا ہے۔آج فلسطین کی غیور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظیم کی شناخت کرکے عزت و سعادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے 66برسوں میں ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں ،ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔
گذشتہ برسوں میں ڈکٹر فتحی شقاقی ،شیخ احمد یٰسین ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے قائدین کی عظیم قربانیوں نے شجاعت کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج فلسطین کے اندر یا باہر پیدا ہونے والے فلسطینی بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے، ان کے کانوں میں شہادت و جہاد کے شعار کی اذان دی جاتی ہے۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں ،ظلم و تشدد اور منافقت کے پروردوں کی غداری کے باوجود یہاں پر ارضِ مقدس فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے مکمل طو ر پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔
آج ہر فلسطینی بچہ،بزرگ،نوجوان،خواتین اس عزم پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں لیکن ارضِ مقدس فلسطین پر ناپاک صہیونی قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اپنی دھرتی کا ایک ایک انچ اسرائیلی قبضے سے آزاد کرائیں گے وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا کے نقشہ سے اس شیطانی جرثومے اور غدود کو نکال باہر کیا جائے گا تو امت مسلمہ بیت المقدس یعنی قبلہ اول میں نماز شکرانہ ادا کرے گی، اسرائیل کا وجود حرف غلط کی طرح مٹ جائے گااور دنیا پر امن و سلامتی کا راج ہو گا ہم اس دن کے انتظار میں ہیں جب عالمی یوم القدس بھی فلسطین کے دارالخلافہ بیت المقدس میں ہو گا وہاں ہزاروں شہداء اور قربانیاں پیش کرنے والوں کی یادیں تازہ کی جائینگی اور انہیں خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جائے گا۔