آئیے! پاکستان کی قدر کریں

Swiss Bank

Swiss Bank

ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 97 ارب ڈالر(بعض دوسرے سوئس ذرائع کے مطابق 200 ارب ڈالر)کی رقم سوئس بینکس میں پڑی ہے جوکہ30سال کے ٹیکس فری بجٹ کے لیے کافی ہے۔ اس سے6کروڑ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی جاسکتی ہیں۔ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک 4رویہ سڑکیں بن سکتی ہیں۔ 500 سے زیادہ پاور پراجیکٹس کے ذریعے ہمیشہ کے لیے فری بجلی دی جاسکتی ہے۔ ہرپاکستانی ماہانہ 20 ہزار روپے 60 سال تک لے سکتاہے۔ اگر یہ رقم 200 ارب ڈالرمانی جائے تو پاکستانیوں کے لیے مندرجہ بالاتمام سہولتیں دوگنی سے زائدہوجائیں گی۔ ورلڈبینک اورآئی ایم ایف سے کسی بھی قرض کی ضرورت نہیں رہے گی۔یعنی صرف سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی اتنی دولت ہے کہ جس سے ملک کے کتنے ہی بے شمارمسائل حل ہوسکتے ہیں جبکہ ملک کے اندرموجود دولت کوصحیح استعمال کیاجائے توکس قدر فوائد حاصل ہوسکتے ہیں اس کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بتایا کہ پاکستان میں تھرکوئلے کے 175 ارب ٹن کے ذخائر موجودہیں جوکہ 618 ارب بیرل خام تیل کے برابرہیں۔ اگرہم پاکستان کے خام تیل کے ذخائر کادنیاکے 5بڑے تیل کے ذخائر والے ممالک کے ساتھ موازنہ کریں تو حیرت انگیز صورتحال سامنے آتی ہے۔ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر 26 ارب بیرل ہیں۔گویا پاکستان کے ذخائرسعودی عرب سے دوگناسے بھی زائد ہیں۔اگرہم سعودی عرب کی طرح روزانہ 10 ملین تیل استعمال کریں توپاکستان کے ذخائر کے ختم ہونے کی مدت تقریباً 200 سال بنتی ہے جبکہ سعودی عرب کے ذخائر کی مدت 81 سال ہے۔

اگردنیاکے چاربڑے ذخائروالے ممالک کوجمع کیاجائے تو وہ پاکستان کے ذخائر کے برابربنتے ہیں۔ سعودی عرب کے ذخائر 260 ‘کینیڈا کے 179’ ایران کے 139 اور عراق کے 115 ارب بیرل کے ذخائر ہیں جو 690 ارب بیرل بنتے ہیں یعنی پاکستان کے ذخائر کے تقریباً برابر۔ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر 175 بلین ٹن ہیں جبکہ دنیامیں کوئلے کی عام قیمت 70 ڈالرٹن ہے۔ اس لحاظ سے صرف کوئلے کی فروخت سے ہم 123 ٹریلین ڈالر حاصل کرسکتے ہیں اوریہ رقم مساوی ہے اس رقم کے جو امریکہ نے پچھلے 200 سالوںمیں بینکو ں سے بطورِ قرض لی ہے۔

٭… پنجاب کے کئی علاقوں میں لوہے کے 140 ارب روپے کے ذخائرہیں جوملکی معیشت میں انقلاب برپاکرسکتے ہیں۔ پنجاب میں 50 سے زیادہ شوگرملوں کوصحیح چینلائز کردیاجائے تو بڑی مقدار میں بجلی پیداکی جاسکتی ہے۔ آب وہواکے لحاظ سے دیکھاجائے توپاکستان چندآئیڈیل ملکوں میں سے ہے۔ یہاں اللہ کی رحمت سے کسی بھی ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے درکار چاروں موسم یعنی سردی’گرمی اور خزاں ‘بہار سب موجودہیں۔ان موسموں کی بدولت دنیاکی تقریباً ہرفصل اورہرپھل یہاں بحمداللہ باافراط موجودہوتاہے۔ جولوگ قیام پاکستان کے شروع میں ڈراتے تھے کہ چند عشروں بعد ہماری آبادی دوگنی سے زائد ہوجائے گی’ہمارے لیے موجودہ وسائل ناکافی پڑجائیں گے

وہ بتائیں کہ آج 6 عشرے گزرنے کے باوجود کیاوسائل بڑھے ہیں یاکم ہوئے ہیں؟ گندم آج بھی ہمارے پاس اس قدرزیادہ ہے کہ سارا سال گوداموں کے گودام بھرے پڑے رہتے ہیں۔گویاگندم ہماری طلب سے آج زیادہ ہے اوریہی گندم اکثر ہم دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کرتے ہیں۔ تھرمیں جوقحط آیا ہے’وہ ساری دنیامانتی ہے کہ یہ ہماری اپنی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے تھا’ورنہ عدالتیں خود یہ بیان ریکارڈ پرلاچکی ہیں کہ گندم کے گوداموں کے گودام بھرے رہے لیکن ہم نے انہیں تھرمیں ضرورت مندوں تک نہ پہنچایاجس کے نتیجے میں یہ مصنوعی قحط پیداہوا۔

پاکستان ہی وہ عظیم ملک ہے جس میں دنیاکاسب سے بڑا نہری نظام موجودہے۔پاکستان دنیاکے بہت سے ملکوں خصوصاً وسط ایشیا کے ملکوں کی طرح لینڈلاکڈملک بھی نہیں’ اللہ نے اسے میدانوں’صحراؤں’پہاڑوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی نعمت سے بھی نوازاہے جس سے وہ بے پناہ اقتصادی فائدے حاصل کرتاہے۔اس کی قدران ممالک سے پوچھئے جن کو سمندر نہیں لگتااور وہ اپنافوجی وسول سامان دوسرے ممالک سے منگوانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔روس جیسی عالمی طاقت کے پاس سائبیریا کے برفانی تودوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ پاکستان کے انہی گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے وہ افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکریں مارمار کرتباہ وبرباد ہوگیا…!!
جی ہاں! یہ پاکستان ہی ہے جس کے پاس دنیاکی ساتویں بڑی بہترین فوج ہے اور وہ دنیاکی آٹھویں ایٹمی طاقت ہے۔

دنیا کے 200 ممالک میں پاکستان معاشی طورپر دنیاکی 24 ویں طاقت ہے۔ کپاس کی پیداوار میں پاکستان دنیامیں دوسرے نمبر پر ہے۔ دودھ کی پیداوارمیں ہم دنیا میں تیسرے نمبرپرہیں۔خوبانی کی پیداوارمیں ہم دنیامیں تیسرے نمبرپرہیں۔ پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 36 واں بڑا ملک ہے اور زراعت کے لحاظ سے یہ دنیامیں سب سے آگے ہے۔ ٭… فنی مہارت رکھنے والی آبادی کے لحاظ سے اسلامی دنیامیں ترکی کے بعد دوسرے نمبرپرہے۔٭…کسی ایک جگہ سونے کی کان کاہم دنیامیں سب سے بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔٭…گناپیداکرنے میں ہمارا دنیامیں 5 واں نمبرہے۔

Pakistan

Pakistan

اللہ اللہ …اللہ اللہ…پاکستان کی صورت میں اللہ نے اتنی بڑی نعمت ہم کودی۔ اتنے انعام اس پرکیے…لیکن اس قدر انعامات ہمیں نظرکیوں نہیں آتے…اٹھتے بیٹھتے ہم پاکستان کوہی برا بھلاکیوں کہتے رہتے ہیں…کوئی چھوٹی سی مشکل پڑ جائے یا کوئی غلط بات نظرآجائے فوراً کہہ دیتے ہیں کہ بھئی یہ پاکستان ہے…یہاں تویہی ہوناہے… اور کیا ہونا ہے …ہربات میں کافر ملکوں کی تعریفیں اوراپنے ملک کی برائیاں بیان کرنا ہمارا فیشن بن گیاہے…حیرت ہے کہ ایک ملک پراس قدر اللہ کے انعامات کی بارش اورقوم اس قدر ناشکری کہ بنی اسرائیل کو پیچھے چھوڑتی نظرآتی ہے۔ ہمارے نزدیک پاکستان کے اندربرائیاں ہمیں تین اسباب کی وجہ سے نظرآتی ہیں…اوّل ہماری ناشکری کی عادت جس کی وجہ سے کسی کے پاس قارون کاخزانہ ہو’تب بھی اسے تھوڑا نظرآتاہے…پاکستان کی قدر ان مسلمانوں سے پوچھئے جو کافروں کی غلامی میں رہتے ہیں۔ جہاں آئے روز ان پرمظالم ڈھائے جاتے ہیں’کشمیر’فلسطین’بھارت’برما’وسطی افریقہ میں آئے روز مسلمانوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹاجاتاہے۔یورپ جیسے آزاد کہلانے والے ملکوں میں بھی مسلمانوں کو اذان ونمازکی عام اجازت نہیں۔کاش!ہم ان مسلمانوں کے حالات سے عبرت پکڑکر پاکستان کی قدرکریں۔

دوسری وجہ ہماری کرپشن کی عادت ہے جس کی وجہ سے اللہ کے بے پایاں وسائل موجودہونے کے باوجود ان میں ہمیں برکت کے کوئی آثارنظرنہیں آتے…!
وسائل کی کمی نہیں لیکن ہرشعبے میں کرپشن کی وجہ سے ان میں سے برکت اٹھ گئی ہے’اس لیے وسائل کسی کو نظرہی نہیں آتے… اورجی ہاں!تیسری اور سب سے بڑی وجہ پاکستان میں خرابیاں نظر آنے کی یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے قیام اوراس کی تکمیل کے مقصد ومشن اورنظریہ کوبھلادیا…نجانے ہم یہ موٹی سی بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کامقصد یہاں دین و اسلام کے قیام کے سوا کچھ نہیں تھا…اگرپاکستان میں بھیسیکولرازم’بے دینی اور لادینیت کاہی قانون وماحول قائم کرنا تھا توپھربھارت سے ہمارے الگ ہونے کا کیا جواز رہ جاتاہے۔

بھارت بھی تو سیکولرزم کا ہی آج دنیامیں سب سے بڑا دعویدار ہے۔پاکستان کے قیام کامقصد توتحریک پاکستان کے دوران لگائے گئے اس تاریخی نعرے سے ہی عیاں ہوگیاتھا کہ: پاکستان کامطلب کیا لاالٰہ الااللہ آج اگرہم چاہتے ہیں کہ اللہ پاکستان کے ان بے پایاں وسائل میں برکت ڈالے اور اس کے ثمرات سب کو نظر آئیں تو 67سال کاتجربہ ہمارے لیے کافی ہے۔لاالٰہ الااللہ سے دور رہ کرہم نے بہت دیکھ لیا۔ سوائے ناکامیوں اور بربادیوں کے کچھ ہاتھ نہ آیااورملک بھی متحد نہ رہ سکا۔ اس کے دوٹکڑے کراکربھی ہم نے سبق حاصل نہ کیا۔

14 ۔اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام ضرور عمل میں آگیالیکن اس کی جغرافیائی اورنظریاتی تکمیل ابھی تشنۂ طلب تھی…یہ دونوں مقاصد آج تک ادھورے پڑے ہیں… تقسیم کے وقت حیدرآباد(دکن) ‘جوناگڑ ھ اورمناوادرکی ریاستوں کے مسلم راجاؤں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کااعلان کیا تھا لیکن بھارت نے بزورطاقت اپنی فوجیں داخل کرکے ان ریاستوں پرقبضہ کرلیا۔سیاست میں مذہب کوبیچ میں نہ لانے کادعویٰ کرنے والے بھارت نے بہانہ یہ کیاکہ بے شک ان ریاستوں کے راجاؤں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کااعلان کیاتھالیکن یہاں چونکہ ہندوعوام کی اکثریت ہے’اس لیے ان کابھارت کے ساتھ ملنا ضروری ہے۔دوسری طرف کشمیرکی 97فیصد مسلم اکثریتی آبادی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی اوراس کااظہار کشمیری عوام آج بھی اپنی آزادی کی زبردست تحریک کی صورت میں جاری رکھے ہوئے ہیں’لیکن بھارت کو یہاں سیکولرزم یادآگیا۔

اب وہ یہ درس دینے لگاکہ مذہب کی بنیاد پرخطوں اورلوگوں کو تقسیم نہ کیا جائے۔ حیدرآباد دکن وغیرہ پر قبضہ کرتے ہوئے اس نے جو اصول بنایا’جموں کشمیر میں اس کے بالکل الٹ اصول لاگوکرکے یہاں بھی بزورِ قوت قبضہ کرلیا۔آج بھی کشمیرمیں آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ بھارت نے بزورِ قوت کشمیر پرقبضہ کیاہواہے اورایک دن کے لیے بھی اگر وہ اپنی فوج کو یہاں سے نکال لے تو اس کاکشمیرپرقبضہ آنِ واحد میں ختم ہوجائے گا۔

بھارت کی چیرۂ دستیاں صرف یہیں تک برقرارنہ رہیں۔کشمیرمیں دراندازی کاشورمچانے والے بھارت نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرکے پاکستان کو دو لخت کردیا۔سرکریک اور سیاچن پرقبضہ کیا۔ایک سازشی معاہدے کے تحت پہلے پاکستان کے تین دریاؤں پرقبضہ کیااور اب باقی ماندہ دریاؤں پرقبضہ کرکے اوروہاں سینکڑوں ڈیم بنا کر پاکستان کوبنجربنانے پرتلاہواہے۔ افسوس!یہ ہے کہ ایسے عیاردشمن کوسبق سکھانے کی بجائے ہمارے حکمران اس سے دوستی وتجارت کے لیے بچھے جاتے ہیں۔ آج بلوچستان اورقبائلی علاقوں میں جوآگ لگی ہوئی ہے’ یہ بھی سب اسی کی کارستانیاں ہیں۔یہی بھارت یہاں کے نوجوانوں کوگمراہ کرکے پاکستان کے خلاف خودکش دھماکوں میں استعمال کرتاہے۔

اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ 14 ۔اگست کے موقع پر صرف جشن منالینا کافی نہ سمجھاجائے بلکہ پاکستان کی قدر کرتے ہوئے اس نعمت کی حفاظت اور اس کی جغرافیائی و نظریاتی تکمیل کے تمام تقاضوں کوپورا کیاجائے۔ پاکستان کامطلب کیا لاالہٰ الااللہ کے تاریخی نعرے کو عملی شکل دی جائے۔اہل پاکستان کے اتحادکی بنیاد صرف یہی کلمہ ہے ‘ورنہ دشمن ہمیں رنگ’نسل اورزبان کے مسئلے پرآسانی سے تقسیم کرلے گا۔اسی طرح بھارت سے کشمیرسمیت تمام مقبوضہ علاقوں کی بازیابی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔محب وطن قوتوں اور مجاہدین کی حوصلہ افزائی کی جائے اور پاکستان ایک ایٹمی ملک کی حیثیت سے پورے عالم اسلام کاقائدبن کر کھڑاہو۔

Palestine

Palestine

فلسطین ‘برما’کشمیر’وسطی افریقہ سمیت پوری دنیاکے مسلمان پاکستان ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔انہیں مایوس نہ کیاجائے۔ پاکستان سارے عالم اسلام کومتحد کرکے دنیا بھرکے مظلوم مسلمانوں کی پشتیبانی کافریضہ ادا کرے کہ یہی اس کے قیام کابنیادی تقاضہ ہے۔ اس سے سرِموانحراف نہ کیاجائے۔ان شاء اللہ مستقبل اسلام’عالم اسلام اور پاکستان کاہے۔شکست امریکہ’ بھارت’ اسرائیل اور ان کے چیلوں کا مقدرہوچکی ہے۔ اس لیے کسی ملحد’ سیکولر اور لادین کی باتوں میں آکرپاکستان کوعالم اسلام کی قیادت سے پیچھے نہ ہٹنے دیاجائے۔اسی میں اللہ ورسولeکی رضا اورہماری بقاء ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سوچنے سمجھنے اورعمل کرنے کی توفیق دے۔آمین

تحریر:قاضی کاشف نیاز