امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) اب جب کہ فلسطینی اور اسرائیلی گیارہ دنوں کی جنگ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن نے تنازعے کے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی میں امن کا ‘یہی واحد حل‘ ہے۔
صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی کو ‘دو ریاستی حل‘ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، کیونکہ دو ریاستوں کا قیام ہی تنازعے کا واحد حل ہے، لیکن اسرائیل کے وجود کو واضح طور پر تسلیم کیے بغیر خطے میں ‘امن ممکن نہیں‘ ہے۔
امریکی صدر نے اسی کے ساتھ زور دے کر کہا، ”اسرائیل کی سلامتی کے حوالے سے میرے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘‘
اسرائیل کے ساتھ ہی ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام، جن کا مشترکہ دارالحکومت یروشلم ہو، گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل میں عالمی سفارت کاری کا بنیادی جز رہا ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی روایتی دو ریاستی حل سے مختلف دکھائی دی تھی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ وہ نہ صرف واضح طور پر اسرائیل نواز تھی، سلامتی کے معاملے پر اسرائیل کو فلسطین پر نہ صرف بالادستی حاصل تھی بلکہ فلسطینیوں کو محدود خود مختاری دی گئی تھی۔ فلسطینی رہنماؤں نے یہ منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔
صدر بائیڈن نے جمعے کو دوبارہ دو ریاستی حل پر زور دیا لیکن ساتھ میں انہوں نے کہا، ”اسرائیل کی سلامتی کے معاملے میں میرے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بالکل کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا تبدیلی آئی ہے۔ تبدیلی یہ ہے کہ ہمیں دو ریاستی حل کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلے کا واحد حل ہے۔‘‘
صدر بائیڈن نے جمعے کے روز وائٹ ہاوس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ بندی کے برقرار رہنے کی ‘دعا‘ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا غزہ کی تعمیر نو کے لیے منظم شکل دینے میں مدد کرے گا۔
جو بائیڈن نے فلسطینی اتھارٹی کو ایک ‘بڑا امدادی پیکج‘ دینے کا وعدہ کیا تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ حماس دوبارہ فوجی ساز و سامان میں جمع نہ کرسکے۔
اقوام متحدہ نے بھی غزہ کی تعمیر نو کے لیے ہنگامی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔
تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار افرا د بے گھر ہو گئے ہیں۔
دس مئی سے شروع ہو کر گیارہ دنوں تک چلنے والی جنگ کے دوران غزہ میں زبردست تباہی ہوئی ہے۔
اسرائیل کے فضائی حملوں میں 248 افراد ہلاک ہوئے جن میں 66 بچے شامل ہیں جب کہ 1948 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں حماس کے متعدد جنگجوؤں کے مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق ایجنسی کے مطابق اسرائیلی بمباری کی وجہ سے سینکڑوں مکانات، ہسپتال اور عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ حماس کے مطابق 205 رہائشی بلاک مکمل طورپر تباہ ہوئے نیز 75 سرکاری اور عوامی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار افرا د بے گھر ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ سے جنگجوؤں نے اسرائیل پر 4300 سے زائد راکٹ فائر کیے لیکن ان میں سے 90 فیصد کو اسرائیلی فضائی ڈیفنس نے فضا میں ہی ناکام کر دیا۔
حماس کے راکٹ حملوں میں بارہ اسرائیلی مارے گئے جن میں ایک بچہ اور ایک اسرائیلی فوجی شامل ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک بھارتی اور دو تھائی شہری بھی شامل ہیں۔ مجموعی طعر پر تقریباً 360 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ حماس نے اسرائیل کو جو انتہائی تکلیف دہ او ر زبردست دھچکا پہنچایا ہے اس کے زخم بہت گہرے ہیں۔
اسرائیل اور حماس نے گیارہ روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب سے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ فریقین نے اس جنگ میں اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کیے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جمعے کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اسرائیلی بمباری میں غزہ میں حماس کے 25 کمانڈروں سمیت ‘200 سے زائد دہشت گرد‘ مارے گئے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کی صلاحیتوں کو ختم کردیا اور ماضی میں دھکیل دیا گیا ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا، ”اسرائیل نے غزہ میں حماس کی سرنگوں کو نشانہ بنایا، حماس نے ان سرنگوں کی تعمیر میں بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا تھا اور کئی سال صرف کیے تھے۔ ہم نے حماس کی کئی سال کی محنت ضائع کر کے اسے ماضی میں دھکیل دیا ہے۔‘‘
اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے پاس امن کا بہترین موقع ہے اسے کھونا نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا، ”اسرائیل امن چاہتا ہے تاہم ملک کی سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے۔‘‘
دوسری طرف حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ حماس نے اسرائیل کو جو انتہائی تکلیف دہ او ر زبردست دھچکا پہنچایا ہے اس کے زخم بہت گہرے ہیں۔ انہوں نے ‘مالی امداد اور ہتھیار‘ فراہم کرنے کے لیے ایران کا بھی شکریہ ادا کیا۔
ایران نے خود بھی اس ‘تاریخی فتح‘ کی تعریف کی ہے اور فلسطینیوں کی مدد کے تہران کے عزم کا اعادہ کیا۔ لبنان کے حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں نے بھی ‘دیرینہ دشمن‘ اسرائیل کے خلاف ‘فلسطینیوں کی فتح‘ کا خیر مقدم کیا ہے۔