فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے پر مزید سینکڑوں گھر تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اگست میں بھی تقریبا ًدو ہزار مکانات کی تعمیر کو منظوری دی گئی تھی، جبکہ ایسے منصوبوں سے امن کے عمل کو خدشات لاحق ہیں۔
اسرائیل نے 24 اکتوبر اتوار کے روز فلسطین کے مقبوضہ علاقے مغربی کنارے میں مزید ایک ہزار 355 مکانات کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل اگست میں اسرائیل نے تقریبا ًدو ہزار مکانات پر مشتمل ایک نئی بستی بسانے کا منصوبہ منظور کیا تھا اور نیا اعلان اس فہرست میں ایک اور اضافہ ہے۔
ان اقدام سے ان خدشات میں اضافہ ہوتا ہے کہ نئی بستیوں کی تعمیر سے کسی بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی امیدوں کو نقصان پہنچے گا اور اس سے خطے میں امن کے قیام کی کوششیں بھی متاثر ہوں گی۔
اسرائیل کی مکانات کی تعمیر سے متعلق وزارت نے جو بیان جاری کیا ہے اس کے مطابق نئے مکانات کی تعمیر سات مقبوضہ علاقوں میں ہو گی۔ ان میں 729 مکانات شمالی ویسٹ بینک کے اس علاقے میں تعمیر ہوں گے جہاں پہلے سے ہی ایئریل نامی بستی آباد ہے۔
تعمیرات کے وزیر زیو الکن کا کہنا تھا، ”تعمیراتی تعطل کے ایک طویل عرصے کے بعد، میں اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ میں یہودیہ اور سامریہ میں یہودی بستیوں کی تعمیر برقرار رکھوں گا۔” اسرائیلی حکومت ان علاقوں کے لیے اسی طرح کی مذہبی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔
پونے پانچ لاکھ سے بھی زیادہ اسرائیلی یہودی ان مقبوضہ زمینوں پر بسائی گئی بستیوں میں پہلے سے ہی آباد ہیں۔ ان فلسطینی علاقوں پر اسرائیل جنگ کے بعد سے ہی قابض ہے، جبکہ فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقے ان کی مستقبل کی ریاست کا حصہ ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل کی ان بستیوں کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نیفتالی بینٹ ان علاقوں میں تعمیرات کی لابی گروپ کے سربراہ ہوا کرتے تھے اور وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بھی سخت مخالف ہیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کی مدت کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ با ضابطہ امن مذاکرات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
بائیں بازو کی جماعت میرٹیز سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان موسی راز نے معروف اخبار ٹائمز آف اسرائیل سے بات چیت میں اس منصوبے پر نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”اسرائیل کے باہر بستیوں کی تعمیر اسرائیل کے لیے نقصان دہ ہے۔” بستیوں کی تعمیر کے مخالف گروپ ‘پیس ناؤ’ کے ہاگت اوفران نے کہا کہ اس ہفتے نئے گھروں کی متوقع منظوری، فلسطینی ریاست کے قیام کی تمام کوششوں کو، مزید پیچیدہ بنا دے گی۔
فلسطینی مغربی کنارے سمیت دیگر علاقوں پر اپنی مستقبل کی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور وہ مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کی تعمیر کو، دو ریاستی حل کے طور پر امن کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر، دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ گھروں کی تیزی سے تعمیر، کسی بھی قدم کو ناقابل عمل بنا دے گی۔
اگست میں بھی اسرائیل نے تقریباً 2,000 نئی رہائش گاہوں کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا اور اس تناظر میں امریکا نے نئی منظوریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے ایک بیان میں اسرائیل اور فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ ایسے، ”یکطرفہ اقدامات سے گریز کریں جو کشیدگی میں اضافے کا سبب بنتے ہوں اور مذاکرات کے ذریعے دو ریاستی حل کی پیشقدمی میں حائل ہوتے ہوں۔”
سن 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل ان تمام علاقوں پر مکمل انتظامی کنٹرول استعمال کرتا رہا ہے جہاں تقریبا ًبیس لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ اس کے بعد سے ہر اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر اور مشرقی یروشلم کے الحاق کی کوششیں کرتی رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دور میں ان تعمیرات میں تیزی آئی۔ ان بستیوں میں پہلے سے تقریباً سات لاکھ یہودی آباد کیے جا چکے ہیں۔