تحریر: عمران خان ’’اللہ رب العزت کسی والد پر ایسا وقت کبھی نہ لائے جب اس کی بیٹیسوال کرے اوروالد کے ہاتھ خالی ہوں۔ عبارت پر مبنی اس پوسٹ کو سوشل میڈیا پر لاکھوں لائیکس ملے ہیں، بات بھی حقیقت ہے کہ جب بیٹی کوئی سوال کرتی ہے تو باپ کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کی خوشی کی خاطر کچھ بھی کرگزروں ،خواہش کا اظہار بعد میں کرے اور پوری پہلے کروں۔ یوں تو ہر رشتہ ہی اخلاص، پیار ، انس کے جذبوں میں پرویا ہوتا ہے، مگردنیامیں والدین اور اولاد کے رشتہ کا کوئی نعم البدل نہیں اور اس میں بھی آغوش ممتا کی تمازت ، احساس زندگی ہی سہی مگربیٹی سے والد کی محبت کا لفظوں میں بیاں ممکن ہی نہیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد سیدہ النساء العالمین نے جس گھر میں قیام فرمایا ، اس مکان کو ہی بیت الحزن کہا گیا۔ یعنی پیغمبر اکرم ؐ کی جدائی سیدہ پر اتنی اثر انداز ہوئی کہ وہ مکان ہی حزن و ملال کی علامت بن کررہ گیا۔داستان کربلاء سیدہ سکینہ بنت الحسین (ع) کے ذکر کے بناء نامکمل ہے۔
دنیا کے مختلف خطوں کی اپنی اپنی روایات ، ثقافت، اطوارہیں، مگر والد کا اپنی اولاد بالخصوص بیٹی کیلئے جو پیار ، درد ، قربانی و شفقت کا جذبہ ہے وہ ہر خطے میں یکساں ہے۔ بیٹی اگر کسی مشکل میں گرفتار ہو جائے اور والد بے بس ہو، تو والد کی حالت اس ضعیف کی طرح ہوتی ہے جو اپنے جسم کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہوتا ہے ، یہی معاملہ اگر الٹ جائے کہ والد کسی مشکل امتحان میں ہو اور بیٹی بے بس تو بیٹی کی حالت اس مچھلی کی طرح ہوتی ہے کہ جسے پانی سے نکال کر صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر چھوڑ دیا جائے۔ پہلے پہل تو یہ مچھلی تڑپتی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ بالآخر وہ فقط منہ کھولتی اور بند کرتی ہے، یہ اس کے قریب المرگ ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔ اپریل کے آخری دنوں میں باپ اور بیٹی کی محبت کے پردرد رشتے کے دو عجب منظر دنیا نے دیکھے ہیں۔ ان مناظر نے ہر دیکھنے والی آنکھ کو نمناک کردیا، مگر جو حرص، ہوس، مفادات، بے رحمی اور احکامات کے شہتیروں سے چمٹے ہیں، وہ ان مناظر کی مختلف توجیہات پیش کرتے رہے، کوئی اسے قوانین کی مجبوری، کوئی حقائق سے متصادم تو کوئی اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں گم کرنے پہ کمربستہ دیکھائی دیا۔
Palestinian girl
پہلا منظر 12 سالہ فلسطینی بچی دیما الواوی کی اسرائیلی جیل سے رہائی کا تھا، کہ رہائی کے وقت اس کا بے بس والد اپنی بیٹی کو گلے سے لگائے رو رہا تھا۔ کیا خبر وہ خوشی کے آنسو تھے کہ اس کے جگر کا ٹکڑا زندہ سلامت اس واپس ملی، یا غم کے کہ 12سالہ پھول سی بچی 2 ماہ درندہ صفت اسرائیلی فوج کی قیدمیں رہی۔ واہ رہے عالم اسلام کا اتحاد۔۔ تم کسی اسرائیلی 22سالہ خاتون کو دو دن کیلئے ہی سہی اپنی جیل میں رکھ کے دکھا دو۔ کہاں 12سالہ بچی کہاں دو ماہ فوجی جیل میں قید، عالم عرب و عجم کے کسی رہنماکی زبان نہیں ہلی۔ کسی نے ناجائز ، غیر قانونی درندہ صفت اسرائیل کے اس غیر انسانی فعل پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ دیما الواوی کو اسرائیلی فوج نے9فروری کو اس وقت گرفتار کیا تھا ، جب وہ سکول کا یونیفارم پہنے ہوئے تھی۔
اسرائیلی فوج کے مطابق اس کے پاس سے چاقو برآمد ہوا تھا۔ گرفتاری کے وقت دیما کو وحشیانہ طریقے سے زمین پر گرا کے اس کے ہاتھ پشت پر کلپ ہتھکڑی سے باندھے تھے۔ اسرائیلی اعداد وشمار کے مطابق چاقو یا ٹریفک حادثات و حملوں میں اب تک 28اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ اسی مد یا خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے 201فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا۔ جن میں سے بیشتر کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ اسرائیلی فوج کے جبرو ستم اور فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد کے وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر تو سبک رفتاری سے گردش کررہے ہیں ، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیائے اسلام کی رہنمائی کے دعویدارسوشل میڈیا کا زیادہ استعمال نہیں کرتے، جبھی تو 34ملکی فوجی اتحاد ہو یا او آئی سی کانفرنس، خلیج کونسل تنظیم کی نشست ہو یا دیگر مسلم فورمز ، کہیں بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اسرائیلی جیلوں میں اس وقت بھی سات ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان قید ہیں، جن میں ساڑھے چار سو سے زائد بچے ہیں۔ ان بچوں میں ایک سو ایسے بچے بھی ہیں جن کی عمر چودہ سال سے بھی کم ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی مختلف رپورٹس میں بتایاجاتا ہے کہ تفتیش کے نام پر ان بچوں پر شدید تشدد کیا جاتا ہے اور تشدد کے ذریعے اقرار جرم کراکے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے
Allah
جہاں سخت سزائیں ان بچوں کا مقدر بنتی ہیں۔ ان بچوں میں کتنی دائماالواوی تو ایسی بھی ہوں گی کہ جو شائد کبھی بھی زندہ اپنے والدین کو نہ مل پائیں۔ معلوم نہیں ان والدین کے دلوں پر کیا بیت رہی ہوگی اور خبر نہیں کہ یہ بچے اسرائیلی زندانوں میں خشکی پر آئی مچھلی کی طرح ٹرپتے ہوں گے یا صرف سانس لیتے ہوں گے۔ دو ماہ کی قید میں 12سالہ دائما پر اتنا تشدد کیا گیا کہ رہائی کے وقت وہ چل نہیں سکتی تھی۔ دائما کے والد کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ اس جبر کے خلاف دنیا کی کونسی عدالت میں فریا د کرے، اللہ کی عدالت میں کیا فریاد کرے کیونکہ وہ تو دلوں کے حال خوب جانتا ہے، اور اس کی لاٹھی بھی بے آواز ہے۔ دوسرا منظر ایک روتی ہوئی بچی کی تصویر تھی ، جس کی عمر بمشکل دس سال ہے، مگر دائما الواوی سے چہرے و صورت میں مشابہت رکھتی ہے۔ شائد کہ یہ مشابہت اس درد کی ہے ، جو دونوں کے درمیان مشترک ہے۔ روتی ، بلکتی دس سالہ صدف ہچکیوں کے درمیان ’’گرم ریت پر مچھلی کے مصداق‘‘ یہی بتاتی رہی کہ انہوں نے میرے پاپا کو اٹھا اٹھا کر مارا، بوٹوں سے سنگینوں سے۔ میں پاپا کو بچانے کیلئے آگے آئی ، مجھے بھی مارا۔ گھر کی عورتوں بھی غم ویاس کی تصویر بنی ہوئی ، چہرے، ہاتھ پاوں کے نیل دیکھاتی رہ گئیں ۔
زاروقطار روتی دس سالہ صدف فلسطین یا کشمیر کی نہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بیٹی ہے۔ جس کے والد پرائمری ٹیچر ہیں، مگر بدقسمتی سے ان مزارعوں سے تعلق رکھتے ہیں، جواوکاڑہ میں اپنے حقوق مانگنے کی غلطی کررہے ہیں کہ برسوں سے جن کھیتوں کو وہ آباد کرتے رہے، جنہیں کاشت کرتے رہے ،انہی کھیتوں کے اناج پر،ان درختوں کے پھل پر ان کا بھی حق ہے۔ ان زمینوں کے مالکان ’’وڈیرے،جاگیرداروں،نوابوں، چوہدریوں‘‘کو یہ گوارا نہیں ۔ اس لیے کوشش کررہے ہیں کہ اپنے ’’مسلح بندوق برداروں ‘‘ کے ذریعے انہیں ان مزارعوں کو ذرا سیدھا کریں، حقوق مانگنے کے سنگین جرم میں کئی افراد گرفتار بھی ہوچکے ہیں ، نیشنل ایکشن پلان کے تحت اور ان مزارعین میں سے 13لاپتہ بھی ہوچکے ہیں۔ اوکاڑہ کی دس سالہ صدف نہیں جانتی کہ ان بندوق والوں کے خلاف دنیا کی کونسی عدالت میں فریاد کرے، خدا کی عدالت میں کیا فریاد کرے۔کیونکہ وہ تو دلوں کے حال خوب جانتا ہے اور اس کی لاٹھی بھی بے آواز ہے۔