تل ابیب (جیوڈیسک) فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب پر ‘فجر75′ طرز کے میزائل سے حملہ کیا گیا جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں اور خان یونس بندرگاہ پر بمباری کی ہے۔
العربیہ چینل کے نامہ نگار کے مطابق اسرائیلی طیاروں کی طرف سے جنوبی غزہ میں حماس کے عسکری مراکز اور تربیتی کیمپوں کو نشانہ بنایا۔ ذرائع کے مطابق حماس نے اسرائیل کی طرف سے ممکنہ حملے کے خدشے کے تحت اپنے تمام مراکز پہلے ہی خالی کرا لے تھے۔
اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری کے بعد غزہ سے سرحد کی دوسری طرف یہودی کالونیوں پر میزائل داغے گئے۔ یہودی کالونیوں میں خطرے کے سائرن بجنے کی آوازیں سنائی دی جاتی رہی ہیں۔
نامہ نگار کے مطابق غزہ سے داغے گئے دو میزائلوں کو اسرائیلی فوج روکنے میں ناکام رہی اور دونوں میزائل تل ابیب میں جا گرے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے لیے حیران کن ہے۔ ہمیں اس کی توقع نہیں تھی کہ فلسطینیوں کے میزائل تل ابیب کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
فوج کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائل حملوں کے بعد تل ابیب کے شمالی علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تل ابیب میں میزائل گرنے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاھو نے وزارت دفاع کے ہیڈ کواٹزر میں سیکیورٹی سے متعلق اہم اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں غزہ کی پٹی سے داغے جانے والے راکٹوں اور تازہ صورت حال سے نمٹنے پرغور کیا گیا۔
حماس اور اسلامی جہاد کی تردید ادھرغزہ کی پٹی کی حکمراں حماس اور اسلامی جہاد نے تل ابیب پر میزائل حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ حماس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں کسی گروپ نے ابھی تک تل ابیب پر’الفجر75’ میزائل داغنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے مطابق جب تل ابیب میں میزائل گرے تو اس وقت حماس کی قیادت مصری وفد کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھی۔ القسام بریگیڈ نے کہا جمعرات کی شام تل ابیب پر فائر کیے گئے میزائل کا تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ میزائل ایک ایسے وقت میں داغے گئے جب حماس اور مصر کی قیادت غزہ کے حوالے سے ایک اہم اجلاس میں شریک تھی۔
دوسری جانب اسرائیل کے ایک سینیر تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ سے میزائل حملہ کرنے والے گروپ کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کر رہے ہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ ان حملوں کی ذمہ داری حماس پر بھی عاید کی ہے جو غزہ کی پر انتظامی کنٹرول قائم کیے ہوئے ہے۔
خیال رہے کہ حماس مصر کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں طویل جنگ بندی کے لیے کوشاں ہے۔ گذشتہ ایک سال سے غزہ کی پٹی کی سرحد پر مسلسل کشیدگی پائی جا رہی ہے اور فلسطینی ہر ہفتے غزہ کی سرحد پر جمع ہو کر حق واپسی اور غزہ کی ناکہ بندی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
العربیہ کے نام نگار کے مطابق غزہ میں تازہ کشیدگی کے بعد مصر نے فریقین سے جنگ بندی برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مصر کو درخواست دی کہ وہ اپنا وفد غزہ سے نکال لے جس کے بعد مصری وفد رواپس روانہ ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ 2014ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔