واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکا ایک مرتبہ بھر سے اسرائیل کی حمایت میں کھل کر سامنے آگیا ہے اور امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قرار داد کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل کی جانب سے جن علاقوں پر قبضہ کیا گیا انہیں خالی کرایا جائے۔
اردن کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیے جانے والے مسودے میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ نومبر سنہ 2017 تک فلسطینی علاقوں کو خالی کر دے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کے امریکا فلسطین کے امن معاہدے کی حمایت نہیں کرے گا،قرار داد میں مزید مشاورت کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر انہوں نے اردن کی جانب سے پیش کی جانے وای قرارداد کو مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے فلسطینی صدر محمود عباس کے اسمعاملے پر مذاکرات کے بیان کا خیر مقدم کیا۔
پساکی نے کہا کہ اس معاملے پر جان کری نے جمعرات کو عاملی رہنماؤں سے مختلف فورم پر بات چیت بھی کی اور امریکا کسی بھی قرارداد کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ اس کا متن دیکھ کر کرے گا۔
ادھر فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد پر مزید بات چیت کے حامی ہیں۔
محمود عباس نے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی قیادت کے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ ”ہم اقوام متحدہ میں اپنے دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ قرارداد پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھیں گے”۔
اسرائیلی صدر بینجمن نیتن یاہو اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کسی بھی یکطرفہ قرارداد کو تسلیم نہیں کرے گا۔
نیتن یاہو نے ایک بیان میں فلسطینی صدر محمود عباس پر الزام عائد کیا کہ وہ سمجھتے ہیں ریاست کے معاملے پر یکطرفہ اقدامات کر کے ہمیں ڈرا دھمکا سکیں گے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ اویڈور لیبرمین نے فلسیطینی قرارداد کی کامیاب کے امکانات کو مسترد کردیا۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل سے معاہدے کے بغیر کسی بھی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔