فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) کل جمعہ کے روز فلسطین کے علاقے غرب اردن میں پرتشدد مظاہروں کے دوران اسرائیلی کی جانب سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں 3 فلسطینی شہید اور 10 اسرائیلی زخمی ہوگئے۔ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کے تشدد کے تازہ واقعے کو امریکا کا نام نہاد امن منصوبہ قرار دیا ہے جس کے خلاف فلسطینی قوم سراپا احتجاج ہے۔ فلسطینی حکام نے تشدد سے متعلق امریکی بیان مسترد کردیا ہے۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سکریٹری صائب عریقات نے ایک بیان میں کہا کہ فلسطین میں تازہ تشدد کے پیچھے امریکا کے مشرق وسطیٰ منصوبے کا کردار ہے۔ یہ منصوبہ فلسطینیوںمیں انتہا پسندی اور نفرت کے بیج بونے کے لیے کافی ہے۔ اس منصوبے میں فلسطین میںیہودی آباد کاری کی جازت اور حمایت کی گئی ہے۔ اس لیے ہم تازہ تشدد میں اسی منصوبے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28 جنوری کو مشرق وسطی میں قیام امن کے اپنے منصوبے کا اعلان کرنا کیا تھا جسے فلسطینیوںنے متفقہ طور مسترد کردیا ہے۔ امریکی صدر کے منصوبے میں ایک نام فلسطینی ریاست کا بھی تصور دیا گیا ہے تاہم القدس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے ساتھ غرب اردن میں قائم کی گئی یہودی کالونیوں کو بھی اسرائیل میں شامل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
گذشتہ روز امریکی صدر کے مشیر جیرڈ کشنر نے ایک بیان میں فلسطین میں تازہ تشدد پر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو قصور وار ٹھہرایا۔ کشنر نے فلسطینی صدر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک میں یوم الغضب کی دعوتیں نہ دیں اور عوام کو تشدد پر نہ اکسائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ محمود عباس نے ان کا پیش کردہ منصوبہ غیر دیکھے مسترد کردیا۔ انہیں پہلے اس منصوبے کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ کشنر نے کہا کہ اگر محمود عباس اس کا مطالعہ کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ یہ منصوبہ فلسطینی عوام کے لیے کتنا اچھا ہے، مگر صدر عباس نے اس کے سامنے آنے سے پہلے اس کی مخالفت کا تہیہ کرلیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔