دنیا میں کئی ممالک ایسے ہے جو طویل ترین تاریخی پس منظر رکھتے ہیں، ان ملکوں کی تاریخ سو ،دو سو یا پانچ سو سال پرانی نہیں ، بلکہ ان ملکوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہیں۔ ان ہی میں ایک ملک فلسطین بھی ہے، فلسطین کا شمار دنیا کے قدیم ترین ممالک میںہوتا ہے۔ فلسطین کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ فلسطین کی تاریخ کی اہمیت اس بات سے بھی بڑ جاتی ہے کہ ایک تو شام کے بعد سب سے زیادہ انبیاء کرام علیہ السلام اسی سرزمین پر تشریف لائیں ، دوسرا مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور یہودی بھی فلسطین کی سرزمین کو مقدس زمین تسلیم کرتے ہے۔ فلسطین کا تبصرہ تمام آسمانی کتابوں میں ملے گا ۔تمام انبیاء کرام نے اس ہی زمین پر خاتمالانبیاء محمد رسول اللہ ۖ کی امامت میں نماز ادا کی ۔تقرباً چار ہزار سال قبل مسیح حضرت ابراہم علیہ السلام اپنے بیٹے اسحاق علیہ السلام کے ساتھ عراق کے شہر ، ار، سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد ہے چھوڑ کر فلسطین میں آباد ہوئے ۔ حضرت اسحق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے ، جن کا ایک نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت دائودعلیہ السلام،حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ سرزمین پیغمبروں کی سرزمین بھی کہلاتھی ہیں۔
فلسطین اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان واقع ہے، مگر اب اس کے بیشتر حصوں پر اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔ 1946 ء سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1948ء میں فلسطین کے بیشتر علاقو پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔فلسطین کا دار الحکومت بیت المقدس تھا ،جس پر 1967 ء میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہے۔مسلمانوں کا قبلہ اول یہیں ہے۔ فلسطین اور فلسطینیوں پر مظالم اور آزادی کی جدوجہد بہت پرانی ہیں۔
تاریخ اسلام میں سب سے پہلے فلسطین کو حضرت سید ناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فتح کیا ، اس وقتفلسطین پر سلطنت روم کی حکومت تھی جو کہ کیتھولک عیسائی تھے۔ فلسطین کے بعض علاقے جنگ سے اور بعض بغیر جنگ کے فتح ہوئے۔ بیت المقدس بغیر جنگ کے فتح ہوا۔بیت المقدس پرقابض پادریوں نے درخواست کی کہ اگر مسلمانوں کے خلیفہ خود آ جائیں تو ہم بغیر کسی جنگ کے شہر مسلمانوں کے حوالے کرنے کو تیار ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہاں کا سفر کیا اور عیسائیوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتے ہوئیفلسطین و بیت المقدس کواسلامی سلطنت کا حصہ بنایا۔
پہلے صلیبی جنگ میں عیسائیوں نے فلسطین پر دوبارہ قبضہ کرلیاتھا، عیسائیوں نے فلسطین پر قبضے کے بعد مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے اس کے ساتھ مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا ئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 2 اکتوبر 1187ء کو فلسطین اور بیت المقدس کو عیسائیوں کے چونگل سے آزاد کرایا، فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کرکے بیت المقدس کو بھی دوبارہ اسلامی سلطنت میں شامل کرایا۔
1187 ء لے کر 1948ء تک فلسطین مکمل طور پر مسلمانوں کے پاس تھا ، 15مئی1948ء کو ایک منظم منصوبے کے تحت فلسطین کے کئی علاقوں کو اسرائیل کا نام دے دیاگیا ، تب سے لے کر 14مئی 2018ء تک یعنی 70سال تک اسرائیلی مظالم سے لاکھوں فلسطینی شہید و زخمی ہوئیں، جبکہ کروڑوں ملک سے دور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی غاصبانہ قبضے کو 70سال پورے ہوگئے ہے ۔ ان70سا لہ اسرائیلی مظالم اور امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقلی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے گزشتہ دنوں حماس نے دس روزہ احتجاجی مارچ (”گریٹ مارچ آف ریٹرن” )کا اعلان کیا تھا ، مارچ کے ابتدا سے ہی فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ پرامن احتجاج تمام بین الاقوامی اصولی کے مطابق فلسطینی عوام کا حق تھا مگراسرائیل کو یہ بات گوارہ ہی نہیں کہ ان کے خلاف کوئی احتجاج بھی کریں ، اس لیے اسرائیلی فوج اور پولیس نے مظاہرین پر سیدھے فائر کھول دیئے ،جس سے تین دن میں 1500 سے زائد افراد زخمی ہوئیں، جن میں بیس کے قریب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں۔
70 سالوں میں جو ظلم 14مئی بروز پیر کو اسرائیلی فوج نے ڈھائے اس کی تاریخ فلسطین میں مثال نہیں ملتی ۔ اسرائیلی جارحیت اور امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقلی کے خلاف ا حتجاج کے لیے بیٹھے فلسطینی احتجاجی مظاہرین پر اسرائیلی فوج اور پولیس نے پیر کے روزسٹیٹ فائرنگ شروع کردی جس سے ایک ہی دن میں 2500سے زائد افراد نشانہ بنے جو بھی ایک تاریخی ریکارڈ ہے کیوں کہ اس سے قبل کبھی بھی کسی بھی ملک میں مظاہرین پر اس قسم کی بے رحمانہ فائرنگ نہیں ہوئی اور نہ ہی ایک دن میں ایک ساتھ اتنی تعداد میں مظاہرین زخمی و قتل کیے گئے۔ اسرائیلی فوج و پولیس کی فائرنگ سے 55افراد شہید بھی ہوئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میںکہا کہ مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ فلسطینی حکام نے شہدا کی تعداد 55 بتائی ہے۔ غزہ میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق شہید ہونے والوں میں طبی عملے کا ایک اہلکار،دوصحافی ،ایک کم سن لڑکی سمیت 7 بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے اور شہدا کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے غزہ کی پٹی پر بمباری بھی شروع کردی ہے۔ ادھر بیت المقدس میں بھی فلسطینی احتجاج کے لیے نکل آئے جن کی اسرائیلی اہلکاروں کیساتھ جھڑپیں ہوئی۔ اسرائیل کے اندر رہنے والے عرب شہری مقبوضہ بیت المقدس پہنچ کر احتجاج کرنا چاہتے تھے تاہم اسرائیلی پولیس نے ان کی بسیں روک دیں۔
غزہ میں ”گریٹ مارچ آف ریٹرن” کے عنوان سے جاری مظاہروں میں پیر کے روز شرکت کرنیو الوں کی تعداد خود اسرائیلی حکام کے مطابق 35 ہزار سے زائد تھی۔الجزیرہ ٹی وی کے مطابق فلسطینی حکام کاکہناہے کہ زخمیوں میں سے کم و بیش 1000افراد کو سیدھی گولیاں لگیں۔ دیگر ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کی شیلنگ سے زخمی ہوئے۔دوسری جانب امریکی سفارتخانے کی منتقلی کی تقریب میں امریکی صدر ٹرمپ کی بیٹی اور داماد بھی شریک ہوئے۔ الجزیرہ ٹی وی ہی کی رپورٹ کے مطابق یروشلم (بیت المقدس) میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی تقریب 15مئی کو ہونی تھی جس دن اسرائیل اپنی آزادی کا دن بناتا اسی دن امریکی سفارتخانہ منتقلی تقریب منعقد کی جانی تھی مگر نامعلوم وجوہات کے بنیاد پر اس تقریب کو ایک دن پہلے یعنی 14مئی کے دن منعقد کی گئی ۔ (الجزیرہ ٹی وی)
تاریخ کی کتاب کے پہلے پنے بر یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ جس دن مسلمانوں کے مقدس زمین پر اسرائیلی وجود کو تسلیم کرتے ہوئے امریکا اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کر رہاتھا اسی دن اسرائیلی اور امریکی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں سینکڑوں فلسطینیوں کے جسموں میں گولیاں پیوست کی گئی اور عالم اسلام خاموش تماشائی بنا رہا۔ تاریخ آنسوئوں سے نہیں خون سے تحریر ہوتی ہے ، جو فلسطینیوں نے کرکے دیکھائی ۔” پکار رہا ہے فلسطین” آج امت محمدیہ کو ”پکارہاہے فلسطین” آج عمر فاروق کو، ‘ ‘پکار رہا ہے فلسطین” آج صلاح الدین ایوبی کو ، ” پکار رہا ہے فلسطین” اور کہہ رہا ہے فلسطین کہاہے وہ لوگ جو میرے غم میں میرے ساتھ ہوتے تھے ، کہاں ہے وہ شہسوار جنہونے ہر ظلم سے مجھے نجات دیلائی تھی۔میں انتظار میں ہو ں ان لوگوں کی جو مجھے اور میرے بچوں کو آ زاد کرائے اسرائیلیچونگل سے۔ (یااللہ فلسطین سمیت پورے دنیا کے مسلمانوں پر رحم فرما(آمین))