تل ابیب (جیوڈیسک) اسرائیل کی ایک فوجی عدالت نے ایک زخمی فلسطینی کو سر میں گولی مار کر موت کی نیند سلانے والے فوجی کو قتل کے الزام میں قصور وار قرار دے دیا ہے۔
اس قاتل فوجی الیئور آزاریا کے خلاف مئی سے تل ابیب میں ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جارہا تھا اور دائیں بازو کے سیاست دان اس کے دفاع میں پیش پیش رہے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج کی قیادت نے اس کے فعل کی مذمت کی تھی۔
تین رکنی عدالت کی ایک جج کرنل میا ہیلر نے بدھ کے روز اڑھائی گھنٹے میں اس کے خلاف فیصلہ پڑھ کر سنایا ہے اور انھوں نے اس فوجی کے وکلاء کی جانب سے پیش کردہ دلائل پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔تاہم عدالت نے ابھی اس کو سزا نہیں سنائی ہے ۔ مجرم کو بیس سال تک قید کی سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔
خاتون جج ہیلر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ زخمی فلسطینی پر آزاریا کے گولی چلانے کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔
جب جج فیصلہ پڑھ رہی تھیں تو عدالت میں موجود اس فوجی کے چہرے کا رنگ بھی متغیر ہورہا تھا۔ وہ سبز رنگ کی فوجی وردی ملبوس میں تھا اور مسکراتا ہوا اپنے خاندان کے ارکان کے ساتھ عدالت میں آیا تھا لیکن فیصلہ سننے کے بعد اس کے چہرے کا رنگ اتر گیا تھا۔
واضح رہے اس اسرائیلی فوجی نے مارچ 2016ء میں مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں ایک فلسطینی نوجوان عبدالفتاح الشریف کو پہلے گولی مار کر زخمی کردیا تھا اور پھر اس کے سر میں گولی مار کر شہید کردیا تھا۔اس کے بارے میں تب اسرائیلی فوج نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ حملہ آور تھا لیکن زخمی ہونے کے بعد اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں رہا تھا۔
واقعے کے وقت اس قاتل فوجی کی عمر انیس سال تھی۔ایک فلسطینی نے اس تمام واقعے کی ویڈیو بنا لی تھی اور ا س کی سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کی گئی تھی جس کے بعد اسرائیلی فوج اپنے قاتل فوجی کے خلاف مقدمہ چلانے پر مجبور ہوگئی تھی۔
اس فوجی کے خلاف مقدمے پر اسرائیل کے یہودی سیاست دان اور عوام دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ ان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والےاس کے خلاف مقدمہ چلانے اور اس کو سزا دینے کی حمایت کرتے رہے ہیں جبکہ دائیں بازو کے سیاست دان اور انتہا پسند اس کے خلاف مقدمے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
ان میں سے دسیوں مظاہرین نے بدھ کو تل ابیب میں صہیونی فوج کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر مظاہرہ کیا ہے۔یہیں فوجی عدالت نے مجرم کے خلاف فیصلے کا اعلان کیا ہے۔انھوں نے کتبے اور بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر یہ لکھا تھا کہ اسرائیلی عوام ایک فوجی کو میدان جنگ میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
اس قاتل کی حمایت میں انتہا پسند صہیونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو بھی کود پڑے ہیں۔ انھوں نے اس کے والد سے فون پر بات کی ہے اور اس سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔دائیں بازو کے بعض سیاست دانوں نے آزاریا کو معافی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
انتہا پسند ایویگڈور لائبرمین نے مئی میں وزارت دفاع کا قلم دان سنبھالنے سے قبل آزاریا کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا تھا اور اس کے خلاف مقدمے کی ایک سماعت کے موقع پر عدالت میں حاضری بھی دی تھی لیکن اب وہ اپنے اس سابقہ موقف سے منحرف ہوگئے ہیں اور بدھ کو فیصلہ سنائے جانے کے بعد کہا ہے کہ” وہ اس سے متفق تو نہیں ہیں لیکن اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے تمام سیاست دانوں پر زوردیا ہے کہ” وہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ،فوج اور اس کے چیف آف اسٹاف پر حملوں سے باز آ جائیں۔
اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف گادی آئزنکوٹ اس مقدمے کو سیاسی رنگ دینے کی مخالفت کرچکے ہیں اور انھوں نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے رویے سے فوج کو سخت نقصان پہنچے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ”فائر کب کھولنا ہے،اس سے متعلق قواعد کی پاسداری کی جانی چاہیے۔