تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی کے کالے قانون کے خلاف مقبوضہ فلسطینی شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اندرون فلسطین کے مختلف شہروں میں کئی روز سے مختلف مقامات پر اذان پر اسرائیلی پابندیوں کے خلاف شدید احتجاج کیا جارہاہے۔سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہر ام الفحم میں اسرائیلی قانون کے خلاف ایک بڑے احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا جس میں مقامی فلسطینی شہریوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر اذان پر پابندی کے قانون کو نسل پرستانہ، مذہبی آزادیوں کے خلاف سازش اور صہیونی فاشزم کی بدترین مثال قرار دیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ ام الفحم میں عوامی مزاحمتی کمیٹی کے چیئرمین احمد الشریم نے بتایا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے منظور کردہ قانون نے نازیوں کی یاد تازہ کردی ہے ۔ مقامی شہریوں نے اذان پر پابندی کے قانون کے خلاف ہرسطح پر آواز بلند کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی جاری کردا رپورٹ میں بتایا کیاگیا ہے کہ سرزمین فلسطین صرف اسلامی اور انسانی تاریخ کا گہوارا ہی نہیں بلکہ یہ خطہ اپنی سرسبزی اور شادابی کی بدولت جنت کا ٹکڑا سمجھی جاتی تھی مگر غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں یہ خطہ جنت کچھ اس طرح تاخت وتاراج ہوا ہے کہ آج اس کی تمام کرشماتی خوبصورتی اور جادوئی شادابی کا نام و نشان تک باقی نہیں بچا ہے ۔ حد نگاہ پھیلے سرسبز کھیت کھلیان یہودی کالونیوں میں دب چکے اور جو تھوڑا بہت علاقہ بچ پایا ہے ان کالونیوں سے نکلنے والے گندے پانی کے باعث جوڑ اور گندگی کے تالابوں کا منظر پیش کر رہا ہے۔
فلسطین کی سرسبزی وشادابی کو گہنا دینے والی یہودی کالونیوں کے منفی اثرات پر روشنی ڈالی ہے ۔موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی ارض فلسطین کی قدرتی رونق اور خوبصورتی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا مگر اب فلسطینی شہری اس سرسبزی اور شادابی کو ترس گئے ہیں۔غرب اردن کے بعض شہروں کا جائزہ لیا جہاں پر سبزے کی جگہ یہودی کالونیوں کی سیوریج لائنوں سے خارج ہونے والا فاضل مادہ، فیکٹریوں سے نکلنے والے گندے پانی اور یہودی کالونیوں سے چھوڑے جانے والے زہر آ لود پانی کے باعث جوہڑ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
Israel-Palestinian
اردن اور غرب اردن کے درمیان وادی اردن کا علاقہ اپنی شادابی کے باعث غیر معمولی شہرت رکھتا ہے ۔ وادی اردن کا بیشتر حصہ اسرائیلی حکومت نے غصب کر رکھا ہے جہاں یا تو یہودی کالونیاں قائم ہیں یا پھر فوجی کیمپوں کے لیے مختص کیا گیا ہے ۔ ان کیمپوں، کالونیوں اور وہاں پر بنائے گئے کارخانوں نے وادی کی خوبصورتی کو تو تباہ برباد کیا ہی ہے مگر 160گندگی کے ڈھیروں، جوڑوں اور گندے پانی کے تالابوں نے انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
وادی اردن کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ مشرقی عقربا کا علاقہ جو اریحا شہر تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہ پہاڑوں اور ہمہ نوع سبزیوں، پھلوں کے باغات اور جنگلات کی وجہ سے مشہور رہا ہے مگراب اس علاقے کی یہ خوبیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ غرب اردن میں گھٹن کی فضاء سے تنگ آئے فلسطینی دل ودماغ کو ترو تازہ کرنے کے لیے وادی اردن کا رخ کرتے اور اس علاقے کی قدرتی اور صاف فضاء میں وقت گذارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عموما غرب اردن کے سکولوں کے طلباء کے ٹرپ اور دیگر شہری گروپوں کی شکل میں وادی اردن وارد ہوتے ہیں۔ عقربا قصبے کی ہریالی، پہاڑی چوٹیوں اور ان کے اطراف سے پھوٹتے پانی کے چشموں، آبشاروں اور سرسبزو شاداب مقامات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر اب یہ علاقہ کیمیائی مواد کے ڈھیروں میں تبدیل ہوتا جا رہاہے ۔ وادی اردن کی قدرتی خوبصورتی اور اس کا 160قدرتی ماحول ماضی جیسا نہیں رہا ہے۔ ہوا میں پھولوں، سبزے اور سرسبز درختوں کی بھینی بھینی خوشبو کی جگہ کیمیائی مادوں کی بدبو پھیل چکی ہے۔
رپورٹ میں ایک مقامی شہری حمزی العقرباوی کا ذکرکیا گیا ہے جس کا کہنا ہے کہ موسم بہار کے آتے ہی وادی اردن میں لوگوں کی گہما گہمی میں غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوجاتا۔ شہری سیرو سیاحت کی غرض سے یہاں قافلوں کی شکل میں آتے جس کے نتیجے میں یہاں کی مقامی آبادی کو معاشی طور پر بھی فایدہ پہنچتا اور دوسرے شہروں سے آئے فلسطینی بھی کھلے اور پرفضاء ماحول سے لطف اندوز ہوتے ۔ مگر فلسطینیوں سے اب یہ نعمت بھی صہیونی دشمن نے چھین لی ہے ۔ وادی اردن میں جگہ جگہ چشمیں پھوٹتے ہیں مگر اب ان کا پانی زہرآلود ہوچکا ہے ۔ فضائی اور زمینی آلودگی کے نتیجے میں یہاں کی رونق سمجھے جانے والے چرند پرند یا وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں یا آلودگی کے نتیجے میں اپنا وجود ہی کھوہ بھیٹے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ فضائی اور زمین آلودگی کے نتیجے میں مہلک وبائیں پھیل رہی ہیں۔ شہری اسرائیلی ریاست کے قائم کردہ کارخانوں سے نکلنے والے زہرسے ملا پانی پینے پر مجبور ہیں جو ان کی پیاس بجھانے کے بجائے ان کے لیے وبال جان بن رہا ہے۔
ایک دوسرے شہری عبداللہ القبلاوی نے بتایا کہ اس کا تعلق وادی اردن کے قبلان قصبے سے ہے ۔ وادی کے تمام قصبوں سے پھوٹنے والے چشموں کا پانی خالص نہیں رہا ہے ۔ یہ صرف مرکزی وادی اردن تک محدود نہیں بلکہ وادی قانان، وادی کفر دیک، سلفیت گورنری اور اریحا سب گندے پانی اور کیمیائی فاضل مادے کے نتیجے میں بدترین ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔ ہرآنے والا دن مقامی فلسطینی آبادی اور ماحول کے لیے تباہی کا سامان لا رہا ہے۔غاصب صہیونی ریاست نے فلسطینی قوم کا سکھ، چین، زمین اور املاک تو پہلے ہی غصب کرلیے تھے۔ ان قدرتی ماحول اور قدرتی فضاء کی نعمت سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔