غزہ (جیوڈیسک) فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے فلسطینی قوم کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کی غزہ کی پٹی پر بمباری کے بعد صدرعباس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کے فلسطینیوں کے خلاف جرائم پر خاموشی اسرائیلی جرائم کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہے۔
ادھر ہفتے کے روز اسرائیلی فوج کی بمباری میں اورایک اور فلسطینی شہید ہو گیا۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 25 سالہ خالد محمد ابو قلیق شمالی غزہ میں بیت لاھیا کے مقام پر اسرائیلی بمباری میں شہید ہوا۔
قبل ازیں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ایک بچی صبا ابو عرار جام شہادت نوش کر گئی تھی۔اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ پر مسلسل بمباری روکنے کے لیے فلسطینی حکومت نے اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب غزہ میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں پر مشتمل کنٹرول روم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ غزہ کے اطراف میں مزاحمت کاروں کی طرف سے میزائل داغے گئے ہیں۔ یہ میزائل اور راکٹ اسرائیلی فوج کی غزہ پر فوج کشی کے جواب میں داغے گئے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ غزہ سے قریبا 200 میزائل اور راگٹ فائر کیے گئے۔ ساتھ ہی فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ ہفتے کے روز اسرائیلی فوج نے غزہ کی تمام گذرگاہیں بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
ادھریک دوسری پیش رفت میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے امریکا کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے لیے تجویز کردہ امن فارمولہ مسترد کر دیا۔ ایک بیان میں صدر عباس نے کہا کہ امریکا کی طرف سے جو امن فارمولہ تجویز کیا گیا ہے اس میں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی امن اسکیم کے باقاعدہ اعلان سے قبل وہ اسے مسترد کرتے ہیں۔
صدر عباس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکی ایلچی جیرڈ کشنر کے تیارکردہ مشرق وسطیٰ کے لیے امن فارمولے کو قبول کریں گے تو ان کا کہنا تھا ہم ایسا کوئی اسی فارمولے کو تسلیم کریں گے جس میں فلسطینیوں کے حق خود اردایت، القدس اور پناہ گزینوں کے حقوق کا منصفانہ حل نہیں نکالا جائے گا۔
خیال رہے کہ کشنر نے، جو امریکی صدر کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کے شوہر بھی ہیں، واضح کیا کہ وہ دو برس سے مذکورہ امن منصوبے کی تیاری پر کام کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ وہ رمضان کے بعد جون میں اپنی تجاویز کا انکشاف کریں۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ پالیسی برائے مشرق قریب سے گفتگو کرتے ہوئے کشنر نے کہا کہ امریکا نئی اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے بعد مغربی کنارے کی یہودی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے امکان پر نظر کرے گا۔
یہ منصوبہ جو گزشتہ ڈیڑھ برس سے التوا کا شکار ہے دو مرکزی شقوں پر مشتمل ہے۔ پہلی شق سیاسی نوعیت کی ہے اور یہ مرکزی معاملات سے متعلق ہے مثلا بیت المقدس کی پوزیشن وغیرہ۔ دوسری شق اقتصادی نوعیت کی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی معشیت کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی مدد کرنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے دو برس قبل اپنے داماد کو یہ ذمے داری سونپی تھی کہ وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کے حل کے واسطے “حتمی معاہدے” کا فارمولا تیار کریں۔ دو ہفتے قبل کشنر نے اعلان کیا تھا کہ وہ جون کے اوائل میں اس منصوبے کا انکشاف کریں گے۔