فلسطینی تحریک مزاحمت

Palestinian Resistance Movement

Palestinian Resistance Movement

تحریر: محمد عتیق الرحمن۔ فیصل آباد
فلسطین کے علاقے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں گذشتہ ایک ماہ سے سے شدید کشیدگی جاری ہے ۔حالیہ ایک ہفتے کے دوران پر تشدد کاروائیوں میں اضافے کے بعد صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ سے لے کر سماجی میڈیا تک ’’انتقاضہ سوم‘‘ کی آواز سنائی دے رہی ہے ۔یہ انتقاضہ کیا ہے اور تحریک آزادی فلسطین میں اس کے تاریخی اثرات کیا رہے ہیں ؟ آئیے آج کے کالم میں اس پر نظر ڈالتے ہیں ۔ انتقاضہ ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے اندر ایک پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے ۔یہ جہد مسلسل اور دشمن کے خلاف ایک ایسی تحریک کانام ہے جو3دہائیوں پہلے جدید ترین اسلحہ سے لیس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ مند ممالک کی حمایت یافتہ بدنام زمانہ صیہونی قوم کے خلاف فلسطینیوں نے غلیلوں اور پتھروں سے شروع کی تھی۔انتقاضہ کاعربی مطلب ہے’’ہلچل‘‘اوراٹھ کھڑے ہونا ہے ۔ یہ ایک ایسی قوم کے خلاف جدوجہد کانام ہے جس کی پوری تاریخ عیاری ومکاری،دھوکہ دہی،جھوٹ وفریب،ظلم وبربریت ،قتل وغارت اور پوری دنیا پرحکومت کرنے کے خوابوں سے بھری پڑی ہے ۔

80ء کی دہائی کے وسط کے بعد بیت المقدس کی جدوجہد آزادی نے ایک نئی کروٹ لی۔فلسطین کے گلی کوچوں میں مظالم کے خلاف آواز بلند ہوگئی۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں پتھر لئے اسرائیلی فوجیوں کے سامنے سینہ سپر کئے کھڑے ہوگئے ۔لوگوں کا گمان تھا کہ غزہ کی پٹی میں واقع خیمہ بستی ’’جالیا‘‘میں دانستہ طور پر ایک اسرائیلی ٹرک تلے کچلے جانے والے 4فلسطینی مزدوروں کی شہادت پر فلسطینیوں کایہ شدیدردعمل وقتی ہے جس نے آس پاس کے چند شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور عوامی احتجاجی تحریک شروع ہوگئی ہے۔لیکن فلسطینیوں نے برس ہابرس اس سرفروشانہ روش پر قائم رہ کر دنیا کو باور کروا دیا کہ آج بھی امت مسلمہ زندہ ہے اور مسلمانوں کی رگوں میں اسلامی غیرت وحمیت باقی ہے۔

یہ اصل میں فلسطین کی اسلامی بیداری تھی یعنی عرب قومیت سے اسلامی شناخت کی جانب سفر شروع کررہی تھی ۔اسی اسلامی مزاحمتی تحریک کو انتقاضہ اولیٰ کا نام دیاگیا۔انتقاضہ اولیٰ عشرہ بھر چلی لیکن یہ اپنی تاثیر میں اس قدر شدید تھی کہ قہر وتشدداور عیاری ومکاری کی ناکامی کے بعد اسرائیل اور اس کے حواری اس تحریک کے دوررس نتائج بھانپ گئے تھے ،چناں چہ اس نے فلسطینی قوم سے مذاکرات میں ہی عافیت جانی۔اگلے چند برسوں میں1991ء کی میڈریڈ امن کانفرنس، امریکی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں اوسلو مذاکرات،1993ء میں یاسر عرفات کااسحاق رابن سے تاریخی مصافحہ اور غزہ کی ایک بلدیہ نما ’’فلسطینی اتھارٹی‘‘کاقیام اسی انتقاضہ اولیٰ کی مرہون منت ہیں ۔انتقاضہ اولیٰ کے دوران 1500کے قریب فلسطینی شہید جبکہ 1,50,000کے قریب فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تھا ۔200سے زائد اسرائیلی جہنم رسید ہوئے تھے۔

Ariel Sharon

Ariel Sharon

سنہ 2000ء میں انتقاضہ ثانی شروع ہوتاہے ۔جس کی بنیادی وجہ اس وقت کی اسرائیلی اپوزیشن پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ایریل شیرون نے اسرائیل کاہیروبننے اور وزیراعظم بننے کے لئے یہ شر انگیزاعلان کیاکہ وہ احاطہ مسجداقصیٰ میں گھس کر’’مزعومہ ہیکل‘‘ کا سنگ بنیادرکھے گا۔ایریل شیرون بڑی تعدادمیں اسرائیلی فوج کی حفاظت میں مسجد کے اندرداخل ہونے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن اس پریہ واضح ہوچکاتھا کہ مطلوبہ جگہ پہنچنے کے لئے اسے فلسطینیوں کی لاشوں سے گذرناہوگا۔فلسطینیوں نے یہ ثابت کردیاکہ جب تک ایک بھی فلسطینی کی رگوں سانس کی رمق باقی ہے وہ مسجد اقصیٰ کادفاع کریں گے۔گویاکہ مسجد اقصیٰ کے محافظ نمازی اس دن موت کے لئے گھروں سے تیار ہوکرنکلے تھے۔

صیہونی فوج نے اپنی ظالمانہ روش برقرار رکھتے ہوئے اندھادھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ،اس کے اردگرد سڑکیں ،بازاراور گلیاں خون مسلم سے رنگین ہوگئیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں نے بہادری کے کارہائے سرانجام دئیے۔اس روز خون اتنا بہا کہ شیرون ہیرو اور الیکشن جیتنے کے لئے ایک مضبوط امیدوار بن گیالہذا اسے ہیکل کی بنیاد کی ضرورت ہی نہ رہی۔لیکن یہ واقعہ فلسطینیوں کو ’’انتقاضہ دوم‘‘ کی بنیاد فراہم کرگیااور اس کی آگ بیت المقدس سے بڑھتی ہوئی فلسطین کے دوسرے شہروں تک جاپہنچی اور بالآخر ایک ایسے لاوا کی شکل اختیار کرگئی جسے قابو کرنا کسی سیاست یامصلحت کے بس کی بات نہ رہی ۔اس روز 7فلسطینی شہید جبکہ 300سے زائد زخمی ہوئے ۔جھڑپوں میں 70سے زائد اسرائیلی زخمی ہوئے ۔اسی انتقاضہ کو ’’اقصیٰ انتقاضہ‘‘بھی کہاجاتاہے۔

اب ایک بار پھر فلسطین میں تحریک انتقاضہ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور دنیا اسے انتقاضہ سوم کانام دے رہی ہے ۔مغربی کنارے میں یکم اکتوبر سے 9اکتوبر تک جاری رہنے والی کشیدگی میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 12فلسطینی شہید جبکہ 800زخمی ہوچکے ہیں ۔ادھر فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی شہریوں اور آبادکاروں کو چھرا گھونپ کر زخمی کرنے جیسے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیاہے اس نوعیت کے 7واقعات ہوچکے ہیں ۔جمعہ کے روز ایک اسرائیلی اخبار نے انکشاف کیا کہ حال ہی میں تل ابیب تک پہنچنے والے چاقو حملوں کے باعث اسرائیلی شہریوں میں شدید تشویش اور غم وغصہ پایا جارہاہے۔

Knife Attack

Knife Attack

اخبار کی رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں 25 ہزار اسرائیلی شہریوں نے ہنگامی پولیس کے مرکز رابطہ کرکے چاقو حملے کے خوف کا اظہارکیا ہے ۔ صرف جمعرات کے روز اسرائیلی دفاع کے قریب چاقو حملے کے بعد ہنگامی پولیس کے مرکز کو 5 ہزار 500 کالز موصول ہوئیں جن میں رابطہ کرنے والوں نے خود پر چاقو حملے کا خدشہ ظاہر کیا ۔ مقبوضہ بیت المقدس میں چاقو حملے کے بعد مقامی مرکز کو 6ہزار کالز موصول ہوئیں ،اسی طرح وسطی علاقے میں 7ہزار کالز جبکہ باقی دیگر علاقوں میں موصول ہوئیں ۔

فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے بھی مغربی کنارے کے عوام کو سے مطالبہ کیاہے کہ تحریک انتقاضہ تیز کردیں ۔ مزاحمتی تنظیموں نے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں مزاحمتی کاروائیوں کی تعریف کرتے ہوئے اسلامی مقامات کی حفاظت کے لئے حکمت عملی کے طور پر مزاحمتی کاروائیوں کو تیز کرنے پر زور دیا ۔انہوں نے اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کے خلاف تمام فلسطینی گروہوں کو یکجاکرنے کا مطالبہ کیا۔غزہ میں کی گئی ایک پریس کانفرنس میں مزاحمتی تحریکوں نے فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنے اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے کارکنان کی راہ میں رکاوٹیں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔مزاحمتی تحریکوں نے مسجد اقصیٰ سے مسلمانوں اور عرب کا شہریوں کا تعلق بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں کا فلسطینی زمین پر کوئی حق نہیں ۔انہوں نے 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے فلسطینیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے دفاع کی تحسین کی ۔

غرض اس وقت فلسطین کے افق پر تیسری انتقاضہ کی تحریک دستک دے رہی ہے اورفلسطینی مسلمان القدس کے تحفظ کے لئے ایک بار پھر میدان جنگ کو تیز کررہے ہیں لیکن اس تحریک کو ناکامی کا سب سے زیادہ خوف فلسطینی انتظامیہ اور صدر محمود عباس سے ہے جو اس عوامی رد عمل پر اسرائیل کے سامنے شرمندہ شرمندہ سے دکھائی دے رہے ہیں ۔فلسطینی اتھارٹی کا اتنا بڑا یوٹرن یقیناًفلسطینی مزاحمت کاروں اور عوام کی نظروں میں ان کوگراد ے گا ۔ماضی میں بھی یہودیوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ فلسطینیوں کے مابین خانہ جنگی کروادی جائے اور اس طرح سے اسرائیل کی ان سے جان چھوٹ جائے گی۔

لیکن ماضی میں اس طرح کی سازشوں سے فلسطینی بڑی اچھی طرح سے نمٹ چکے ہیں۔بلاشبہ اس کا سہرا صاحب بصیرت شخصیت شیخ احمد یاسین ؒ ؒ شہید کوجاتا ہے جنہوں نے وہیل چیئر پر ہوتے ہوئے قوم کو جہاد پر کھڑا کیااور انہیں کوئی بھی ایسی غلطی نہ کرنے دی جس پر یہودی خوشی سے بغلیں بجائیں ۔اس لئے موجودہ فلسطینی اتھارٹی کو اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یادرکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ معاملات کرنے چاہیئے ناکہ اسرائیل سے معذرت کرتے پھریں ۔یہ وقت آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا وقت ہے اس وقت فلسطینی مجاہدین نے جس طرح سے اسرائیل کو زچ کرکے رکھا ہے سیاسی قیادت کوبھی چاہیئے کہ مزاحمت کاروں کا ساتھ دیکر اسرائیل پر مزید دباؤ بڑھائیں۔

Mohammad Atiq Rahman

Mohammad Atiq Rahman

تحریر: محمدعتیق الرحمن۔ فیصل آباد
03005098643/03216563157