تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا بلیوں کتوں اور جانوروں کے حقوق کی باتیں کرنے والوں نے انسانیت کے پرخچے اُڑا کر رکھ دیئے۔ شرافت صداقت اور انسانیت کے لبادے میں چھپے بھیڑیوں نے فلسطینی مسلمانوں سے یہودیوں نے درندوں والہ سلوک کر کے ہر روز قیامت صغریٰ بھرپا کی ہوئی ہے !گزشتہ روز ایک خبر اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارنے والی فلسطینی لڑکی احد تمیمی کے خلاف مقدمے کا آغاز ہو گیا ہے۔ احد تمیمی پر سیکیورٹی اہلکار پر حملے اور اشتعال انگیزی کا الزام ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے احد تمیمی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارنے پر 17 سالہ نڈر فلسطینی لڑکی کے خلاف بند عدالت میں 12 دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے ۔گزشتہ سال دسمبر میں بد تمیزی سے پیش آنے پر احد تمیمی نے اسرائیلی فوجی کو تھپڑ رسید کیا تھا۔ یہ واقعہ 15 دسمبر 2017 کو پیش آیا تھا۔ اس وقت احد تمیمی کی عمر 16 برس تھی۔احد تمیمی پہلی مرتبہ 11 سال کی عمر میں منظر عام پر آئی تھیں جب انھیں ایک ویڈیو میں ایک فوجی کو مکے سے ڈراتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل کے وزیرِ تعلیم نے کہا تھا کہ احد تمیمی اور ان کی والدہ کو اپنی باقی کی زندگی جیل میں گزارنی چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کو فلسطینی بچوں سے امتیازی سلوک کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے احد تمیمی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر جاری ایک مہم میں 17 لاکھ افراد نے ان کی رہائی کی حمایت کی ہے۔غزہ فلسطین کا ایک علاقہ ہے جو بحیرہ روم (Mediterranean Sea)کے ساحل پر واقع ہے جسکی آبادی تقریبا1.816ملین ہے۔1993ء میں اوسلو معاہدہ کے تحت غزہ کے بعض علاقے فلسطینی قومی اٹھاریٹی کو دیدئے گئے۔فبروری 2005ء میں اسرائیلی وزیراعظم ایرول شارون کی درخواست پر اسرائیلی حکومت نے غزہ سے انخلاء کے حق میں ووٹ دیا، 12 ستمبر 2005 ء کو اسرائیل نے مکمل طور پر اپنی فوج کو واپس بلالیا۔25 جنوری 2006 ء کو منعقدہ ”فلسطینی قانون ساز کونسل” کے انتخابات میں تحریک اسلامی مزاحمت حماس نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے 132میں سے 74 نشستیں حاصل کی۔
نتائج کے فوری بعد امریکا اور اسرائیل نے جو کہ ساری دنیا میں جمہوریت پسند ہونے کا دعوے کرتے ہیں حماس کی جمہوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس انتخابات میں اپنے جمہوری حق کا استعمال کرکے حماس کو جتانے والی غزہ کی عوام کو سزا کے طور پر اسرائیل نے 2007 ء سے اب تک محاصرہ میں رکھا ہے کبھی برقی سربراہی بند کی جاتی ہے توکبھی آبی سربراہی مسدودکی جاتی ہے جب اس سے بھی ان کا دل نہیں بھرتا تو کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر غزہ پر جنگ برپاء کی جاتی ہے۔
8 جولائی 2014 کو اسرائیل نے ”آپریشن پروٹیکٹف””operation protective”کا نام دیا گیا جو کہ 12 دن سے جاری ہے اور اب تک 337 فلسطینی شہید اور 2,300 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے جس میں معصوم بچوں کی خاصی تعداد ہے۔ 15 جولائی کومدرسہ ثانویہ کے نتائج میں اول مقام حاصل کرنے والے طالب علم اور دیگر 35 طلباء بھی شہداء میں شامل ہیں۔اس آپریشن میں 1200 سے زائد گھروں کو منہدم کردیا گیااور تقریبا 14,000 گھروں کو نقصان پہنچا۔ ”اِف امریکین نیو””if American knew”نامی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق 29 ستمبر 2000 سے 17 جولائی 2014 تک 7,112 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جس میں 1,523 معصوم بچے ہیںجبکہ زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 59,025 ہے۔فلسطینیوں کی قید میں کوئی اسرائیلی قیدی نہیں ہے جبکہ اسرائیل کی قید میں 5,271 فلسطینی ہیں جس میں 17 خواتین، 16 سے 27 سال کی درمیان کے 196 عمر قید کی سزا کاٹنے والے 476 قیدی شامل ہے۔1967 سے لیکر اب تک اسرائیل نے 28,000 سے زائد فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کیا ہے۔ اور فلسطین میں بیروزگار ی کا تناسب مغربی کنارے میں 22.6 اور غزہ میں 27.9 فیصد ہے۔امریکا کی جانب سے اسرائیل کو روزانہ 8.5 ملیون ڈالر کی فوجی امداد دی جاتی ہے جبکہ فلسطینیوں کو کوئی فوجی امداد نہیں دی جاتی۔
2008 میں بھی غزہ پراسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کا بہانہ بناکر پر اپنے حملوں کا آغاز کردیا تھا۔ یہ حملے 27 دسمبر 2008 کو شروع ہوئے تھے،جس کو اسرائیل نے ”آپریشن کاسٹ لیڈ” کا نام دیا تھا۔ فلسطین کی وزرات صحت کے اعدادو شمار کے مطابق 1300 سے 1400 تک فلسطینی شہید ہوئے۔
1848عیسوی میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی۔ یہودیوں نے 1886 عیسوی سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897 عیسوی میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔ اُس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی۔1903 عیسوی تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25,000 کے لگ بھگ ہو گئی۔ 1914ء تک مزید 40,000 کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے۔یہودیوں کا یہ نظریہ تھا کہ جب اس طرح کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا۔ مگر ہوا یہ کہ شروع میں کچھ فلسطینی عربوں کو اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کرنے پرمجبور کیا گیا مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا۔
مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میکماہون نے 1916 عیسوی میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پِیکاٹ کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا۔برطانیہ نے 1917 عیسوی میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی یہودی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی، چنانچہ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد 1918 ء میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث 1918 عیسوی میں فلسطین میں ان کی تعداد 67,000 کے قریب تھی۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق 1922 عیسوی میں یہودیوں کی تعداد11 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ یعنی 6,67,500 مسلمان تھے اور 82,500 یہودی تھے۔ 1930 عیسوی تک برطانوی سرپرستی میں مزید 3,00,000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947 عیسوی میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا۔
اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے۔ یو این او نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے ساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اِسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے۔ 29 نومبر 1947 کو یو این جنرل اسمبلی اس کی منظوری دے دی۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اوریہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر۔ شام۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا۔
امریکہ نے اسرائیل کی پشت پنائی کر کے فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف جو اسرائیل کو خون اور آگ لگانے کی مدد کی ہے وہ اللہ پاک نے پیارے نبی کرینم ۖ کے وسیلے سے ” قرآن ِ پاک ” میں ساڑھے چودہ سو سال قبل فرما دیا تھا کہ مسلمانوں کے دوست ” یہودونصریٰ ” نہیں ہو سکتے ۔ امت مسلمہ پر زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خواب غفلت سے بیدار ہوکر معصوم مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی عملی مدد کریں۔