فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ اس پلان پر پہلی جولائی تک عمل ہو جائے گا۔ تاہم انہیں حکومت میں شامل اپنی حریف جماعتوں سے سخت تحفظات کا سامنا ہے۔
بدھ کو اسرائیلی وزیر جارجہ گابی اشکینازی نے کہا ہے کہ غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملانے کے مجوزہ اقدام پر آج کوئی عمل ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ان کا تعلق مخلوط حکومت میں شامل نیتن یاہو کی حریف جماعت بلو اینڈ وائٹ پارٹی سے ہے۔
پارٹی کے سربراہ وزیر دفاع بینی گینٹز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے میں جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں اور اسرائیل کو اس وقت اپنی تمام تر توجہ کورونا کے بحران پر دینی چاہییے۔
لیکن وزیراعظم نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ اس پلان پر جلد از جلد عمل کیا جائے۔ اسرائیل کے اس مجوزہ اقدام کی اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب ممالک سخت مخالفت کرتے ہیں تاہم بنجمن نیتن یاہوکو یک طرفہ الحاق کے اس منصوبے میں امریکی صدر ٹرمپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
اس سلسلے میں نیتن یاہو نے منگل کو اسرائیل میں متعین امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمن سے ایک تفصیلی ملاقات کی۔ امریکی سفیر خود بھی فلسطینی علاقوں کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کے بڑے حامی ہیں۔ اس ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے غرب اردن پر اسرائیلی “خودمختاری کے مسئلے پر بات کی۔ ابھی ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی کریں گے۔”
نیتن یاہو کے اس بیان سے پہلی بار یہ تاثر سامنے آیا کہ انہیں اپنے پلان پر عمل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور یہ اتنا آسان نہیں جتنا شاید وہ سمجھ رہے تھے۔
مبصرین کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم اپنے متنازعہ پلان پر عملدرآمد کے لیے اس لیے بھی بے چین ہیں کیونکہ انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی مستقبل مشکل میں نظر آ رہے اور ان کی خواہش ہے کہ اس پر ان کے دور صدارت میں پیش رفت ہو جائے۔
امریکا میں نومبر کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے مدمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اباما دور کے نائب صدر جو بائیڈن ہیں۔ انہوں نے واضح کر رکھا ہے کہ اسرائیل کا غرب اردن سے متعلق ایسا کوئی یک طرفہ اقدام نہ اسرائیل کے حق میں ہے نہ ہی خطے کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق قوی امکان ہے کہ نیتن یاہو اپنی ضد پوری کرنے کے لیے غرب اردن میں محدود پیمانے پر فی الحال صرف چند مقبوضہ یہودی آبادیوں کو اسرائیلی خودمختاری میں لانے کا اعلان کردیں۔ ان کے نزدیک یہ ان کے وسیع پلان کا ایک علامتی آغاز ہوگا، لیکن فلسطینیوں کے مطابق ایسا کوئی بھی اقدام خطے کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی شروعات ہوگی۔
بدھ کو غزہ اور غرب اردن میں اسرائیل کے مجوزہ منصوبے کے خلاف مظاہروں کا اہتممام کیا گیا ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل کا ایسا کوئی اقدام “اعلان جنگ” تصور کیا جائے گا، جبکہ فلسطینی انتظامیہ نے کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کی کوششوں سے باز آجائیں تو وہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنے پر غور کر سکتے ہیں۔