فلسطینیوں کے ساتھ یہودیوں کے ظلم و ستم کو اُجاگر کرنے کے لیے دنیا میںہر سال رمضان کے مبارک مہینے کے جمعةالودع کو یوم القدس منایا جاتا ہے۔ ملی یکجیتی کونسل پاکستان کے میڈیا کوآرڈینیٹر جناب شاہد شمسی نے میڈیاکو جمعة الودع کو منانے کو اُجاگر کرنے کی اپیل کی ہے۔ حال ہی میں امریکا نے فلسطینیوں کے زخم تازہ کرنے کے لیے” صدی کی ڈیل” کے نام سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک نام نہاد معاہدہ کا اعلان کیا ۔جسے فلسطینیوں ے رد کر دیا۔ دنیا جانتی ہے کہ تقریبا! پون صدی قبل ١٩٤٨ء میںیہودیوںنے مظلوم فلسطینیوں کے وطن پر برطانیہ، امریکا اور کیمونسٹ روس کی اشیرآ باد سے اور غیر منصفانہ، بلفور معاہدے کی آڑ میں عرضِ فلسطین پر قبضہ کرلیا تھا۔ پھر دنیا بھر سے یہودی، اپنے اس نام نہاد وطن میں منتقل ہونے شروع ہوئے۔ یہودیوں نے فلسطین کے اصل باشندوں کو زور، ذبردستی ، لالچ ،محاصرے اور جنگ کے ذریعے سے بے دخل کیا۔ ان کی زمینوں پر قبضے کرنا شروع کیے۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر دنیا بھر سے بلائے گئے یہودی آبادکاروں کی بستیوں پر بستیاں آباد کرنا شروع کیںجو اب تک رُکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اس ظلم کے خلاف فلسطینی اقوام متحدہ گئے۔ اقوام متحدہ نے اس ناجائز قبضہ کے خلاف درجنوں قراردیں منظور کیں۔ مگر امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل کے سر سے جوں تک نہیں رینگی ۔ بلکہ علانیہ اقوام متحدہ کی قرادادوں کو ٹھکراتا چلا آ رہا ہے۔اوسلو معاہدے میں فلسطین کی آزاد حکومت کو تسلیم کیا گیا۔ آج تک یہ معاہدہ مکمل نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو مبصر کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے۔
یہودی فلسطین میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد اس پر بھی نہیں روکے اور جنگ کر کے پڑوس کے عرب ملکوںکے علاقوں، جس میں شام کی گولان کی پہاڑیاں اور اردن کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اپنی پارلیمنٹ کے ماتھے پر یہ ماٹو تحریر کیا ہوا ہے” اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فراط تک ہیں” اسرائیل توسیع پسندانہ حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے پڑوسی عرب ملکوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے اسی ڈاکٹرئن پر عمل پیرا ہے۔ ویسے تو اسرائیل میں نام نہاد جمہوریت ہے۔لیکن اپنے مذہبی کتاب تورات کے قواہد کے مطابق ایک کٹر مذہبی حکومت قائم کی ہوئی ہے۔ یہودیوں کے مذہب کے مطابق صرف یہودی ہی اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں ۔ باقی انسان کیڑے مکوڑے ہیں۔ تاریخ میں جس قوم نے بھی ان کو پناہ دی اس کے ساتھ دھوکا کیا۔ یہودی مورخ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں اسلامی غلبے کے دوران اسلامی ملکوں میں ہمیں امن نصیب ہوا۔لیکن اس کے بدلے ترکی کے نیک سیرت بادشاہ سلطان محمد سے دھوکا کیا۔ سب صلیبیوں سے مل کر اس کی خلافت ختم کروائی۔ فلسطینی مسلمانوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا۔ بیسوی صدی کے تقریباً پہلے آدھے حصے میں ایک جرمن عیسائی حکمران ہٹلر نے ان سے اتنا بدزن تھا کہ ان کا قتل عام کیا۔ جسے مبالغہ کرتے ہوئے یہودیوں نے ہولو کاسٹ کا نام دیا ہوا ہے۔ دنیا سے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو گیس کی بھٹیوں میں ڈال کر ختم کیا ۔
امریکا کی مدد سے اسرائیل غیر اعلانیہ طور پر ایٹم بم بھی بنا چکا ہے۔ امریکا اور مغربی ملکوں کی مدد سے اپنی فوجی قوت اتنی بڑھا لی کہ دنیا کو فوجی اسلحہ درآمد کرنے لگا ہے۔ سود ی نظام کی وجہ سے دنیا کی دولت پر قابض ہے۔ دنیا میں سرمایادارانہ نظام، بنکینگ نظام، الیکٹرنک ، پرنٹ میڈیا اور اسلحہ سازی پر یہودی قابض ہیں۔عیسایوں کو اپنے فریب سے ملا کر دینا میں مسلمانوں کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکی اورآزاد تجزیہ نگاروں کی درجنوں کتابوں کے مطابق نائین الیون کا واقعہ بھی یہودیوں اور امریکا کی تخلیق ہے۔
١٩٤٨ء کے بعد٣٠ مارچ ١٩٦٧ء کو بھی یہودیوں نے فلسطینیوں کی زمینوں پرقبضے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ہزاروں فلسطینی احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ زمین کے مالک فلسطینیوں نے اسرائیل کے ناجائز قبضہ کے خلاف اپناانسانی حق استعمال کرتے ہوئے ہر سال احتجاج کرتے رہتے ہیں۔قابض اسرائیل فوجی ہر سال ان مظلوم فلسطینیوں پر گولیاں چلاتے ہیں ان کو شہید کرتے رہتے ہیں ۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ہرسال بھی فلسطین کی ساری سیاسی،سماجی جماعتوں اور تنظیموں کی اپیل پر اسرائیل کے کونے کونے میں خاصبانہ قبضہ کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے جاتے ہیں۔ اس پراُمن جلوسوں کے نہتے شرکاء پر اسرائیلی درندہ صفت فوجی ڈاریکٹ فائرنگ کھول دیتی ہے ۔جس سے مظلوم فلسطینی شہید ہوجاتے ہیں ۔امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یوروشلم(بیت المقدس) شفٹ کردیا ہے۔ جبکہ بیت المقدس فلسطینیوں کا دارلخلافہ ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کے قبلہ اوّل ہے ۔اس لیے پونے دو ارب مسلمانوں کی عقیدت کا مظہر ہے، جسے اسرائیل نے ذبردستی قبضہ کیا ہوا ہے۔ پہلے فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کر کے انہیں صابرہ اور شیتلہ کے مہاجر ر کیمپوںس میں دھکیل دیا۔ ظالم یہودیوں نے ان فلسطینیوں کومہا جر کیمپوںمیں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا۔
مہاجر کیمپوں پر ظالمانہ بمباری کی ۔ جان بچانے کے لیے کچھ قریب کے عرب ملکوںمیں ہجرت کی زندگی کے دن گزار رہے اور کچھ دنیا میں تتر بتر ہو گئے ہیں۔ فلسطینی ہر سال اپنے زمینوں مکانوں میںجانے کے لیے مظاہرے کرتے ہیں اور ظالم اسرائیلی ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ حماس کے اسماعیل ہنیہ نے اس احتجاجی مارچ کو تمام فلسطینیوں کی واپس اپنے گھروں میں آنے کا نقیب قرار دیا۔فلسطینی کئی بار ثابت کر چکے ہیں کہ جب کوئی قدم اُٹھاتے تو اسے پورا کرتے ہیں۔اسرائیل کو فلسطین کی ایک اینچ زمین کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔غزہ کی٢٠ لاکھ آبادی میں ٧٠ فیصد آبادی ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کو ١٩٤٨ء میں ان کے گھروں سے نکالا گیا تھا۔ یہ اپنے گھروں میں جانے کے لیے احتجاج کر تے رہتے ہیں۔
غزہ دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ ہے۔باہر سے امداد بھی نہیں آنے دی جاتی۔ ترکی کے طیب اراگان نے اپنا بحری جہاز امدادی سامان کے ساتھ بھیجا ۔جس میں پاکستان سمیت دنیا کے صحافی شریک تھے۔ کھلے میدان میں بین الاقوامی قانون کی پروا کیے بغیر اس جہاز پر حملہ کر روک دیا۔ ترکی نے سفارتی تعلوقات ختم کر دیے۔ نقصان کے ازالے اور معافی کے بغیر معاف نہ کرنے کا اعلان کیا۔فلسطین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ نہتے پرامن مظاہرین پر سیدھے گولی چلانے والوں کو انصاف کے کہٹرے میں لایاجائے۔ اقوام متحدہ کے سیکر ٹیری نے بھی اسرائیل سے کہا کہ نہتے مظاہرین پر فائرنگ کرنا بند کرے۔ عرب لیگ نے فلسطینیوں کی آئے دن کی شہادتوں پرعالمی عدالت انصاف کے اندر مقدمہ قائم کیا ہوا ہے۔
صاحبو! پوری دنیا میں یوم القدس اور فلسطینیوں سے اظہار یکجیتی کے لیے رمضان کے مہینے میں جمعةالودع کو دن منایا جاتا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جاریت کا ایک ہی علاج ہے ۔وہ ہے الجہاد الجہاد ۔جب تک مسلمان اتحاد قائم کرکے جہاد فی سبیل اللہ شروع نہیں کرتے ،دشمن مول گاجر کی طرح مسلمانوں کو قتل کرتے رہیںگے ۔ اللہ امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔آمین۔