مقبوضہ بیت المقدس (جیوڈیسک) ادھر اسرائیلی پارلیمنٹ نے اپنے ایک تازہ فیصلے میں نام نہاد دہشت گردی سے متعلق ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت فلسطین کی آزادی کی خاطر اسرائیلی قابض افواج پر حملے کرنے والوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر فلسطینی حریت پسندوں کے لیے کڑی سزائوں کی منظوری دی ہے۔
پارلیمنٹ نے پہلی ہی رائے شماری میں قانون کی منظوری دے دی۔ اس قانون کا سب سے پہلا ہدف فلسطینی تحریک آزادی اور فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں ہوں گی۔ نئے متنازع قانون کے تحت اسرائیلی تنصیبات پر حملے کرنے والوں، حملوں میں معاونت کرنے والوں کو کم سے کم 30 سال قید کی سزا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل مخالف مذہبی سیاسی جماعتوں کی تائید اور حمایت کرنے والوں کو کم سے کم تین سال قید با مشقت کی سزا دی جائے گی۔ کسی بھی تنظیم کا تعلق اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے ساتھ ثابت ہونے کی صورت میں اسے دہشت گردی کی معاونت کی پاداش میں بند کرنے اور اس کی انتظامیہ کو بارہ سال قید کی سزا سنائی جائے گی۔
دریں اثناء صہیونی جیل سے رہا ہونے والے دو کم سن بچوں نے انکشاف کیا ہے کہ دوران حراست انہیں صہیونی حراستی مراکز میں تیسرے درجے کے تشدد کا سامناکرنا پڑا ہے۔ محمد العداربہ اور محمود یوسف نے بتایا کہ وہ کئی روز تک تنگ اور تاریک کوٹھڑیوں میں بھوکے پیاسے رہے جہاں ان کے آس پاس حشرات الارض اور موذی جانوروں کی بہتات تھی۔ گرفتاری کے وقت انہیں زنجیروں میں جکڑ کرگاڑیوں میں ڈالا گیا اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر حراستی مرکز لے جایا گیا۔ صہیونی فوجیوں نے والدین کے سامنے ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا اور جسم پر بندوقوں کے بٹ، لاتیں اور گھونسے مارے۔ جیل میں لے جانے کے بعد بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ دونوں بچوں کے جسموں پر تشدد کے نشانات موجود ہیں۔ محمود کے جسم اور نازک اعضا پر سلگتے سگریٹ لگائے گئے ہیں۔
دریں اثناء تنظیم آزادی فلسطین کے قائم مقام سیکرٹری ڈاکٹر صائب ارکات نے قطر کے صدر مقام دوحہ میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے پولیٹ بیور کے چیف خالد مشعل سے ملاقات کی۔ ملاقات میں تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکٹو کمیٹی کے نئے ارکان کے چنائو کے حوالے سے نیشنل کونسل کے اجلاس بارے تبادلہ خیال کیا گیا۔
دونوں رہنمائوں نے فلسطین کی موجودہ سیاسی صورت حال، صدر محمود عباس اور ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان کے استعفے اور نئی باڈی کی تشکیل کے حوالے سے نیشنل کونسل کے رواں ماہ ہونے والے مجوزہ اجلاس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔