بیت المقدس (جیوڈیسک) فلسطینی اور اسرائیلی ثقافتی، مذہبی اور سیاسی طور پر ہی بٹے ہوئے نہیں ہیں، انہیں بانٹنے والی ایک دیوار بھی ہے جو سات سو کلومیٹر لمبی ہے۔
فلسطینی مجاہدین کو دور رکھنے کے لیے تعمیر کی گئی اس دیوار نے زمین اور خاندانوں کو تو تقسیم کیا لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے اسٹریٹ آرٹ کرنے والے مصوروں کیلئے وسیع تر کینوس کا بھی کام کیا ہے۔
فلسطین کے حامی مصور جب یہاں آتے ہیں تو اس دیوار پر جذبات کا اظہار ضرور کرتے ہی۔ برطانوی اسٹریٹ آرٹسٹ بینکسی نے بھی اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔ اس فن پارے میں انہوں نے ایک فلسطینی بچے کو اسرائیلی فوجی کی تلاشی لیتے ہوئے دکھایا ہے۔ شائد یہ مصور کا خواب ہو۔ کیونکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔
بینکسی کے فن کا ایک اور نمونہ۔۔ جس میں ایک فاختہ بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے ہے۔ یہ فن پارہ علاقے کی انتہائی خراب صورتحال کو بیان کررہا ہے۔ اس تصویر میں پی ایل او کی رہنما اور پہلی خاتون ہائی جیکر لیلی خالد کو دکھایا گیا۔ انھوں نے انیس سو انہترمیں طیارہ اغوا کیا تھا۔ گرفتار ہوئیں اور پھر رہا بھی ہوئیں۔
لاطینی امریکا کے رہنما فلسطینییوں کیلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ فلسطینی بھی ان ممالک کو پسند کرتے ہیں۔ دیوار پر کی گئی مصوری اس کا واضح ثبوت ہے، یہ اسرائیلی فوج کے تشدد سے ہلاک بچے کا فن پارہ ہے تو یہ تصویر فلسطینیوں کی روز مرہ زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ فلسطینی کے شب و روز کا ایک منظر اس فن پارے میں بھی دکھا گیا ہے۔