غزہ (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل میں اس قانون کی تجدید پر ووٹنگ ہو رہی ہے جس کے تحت مقبوضہ غرب اردن اور غزہ سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کو شریک حیات کے طور پر اب تک شہریت یا رہائشی اجارت نامے سے محروم رکھا گیا ہے۔
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اور بعض دیگر قانون ساز اس قانون کے سخت ناقد ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک نسل پرستانہ اقدام ہے جس کا مقصد اسرائیل کی عرب اقلیت کی آبادی کو محدود رکھنا ہے۔ دوسری جانب اس قانون کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اپنی یہودی خصوصیات اور انفرادیت کے تحفظ کے لیے اس کی ضرورت ہے۔
اسرائیلی پارلیمان میں جس قانون کی تجدید کے لیے پیر کو ووٹنگ ہو رہی ہے یہ 2003 ء سے اب تک فلسطینی خاندانوں کے لیے گوناگوں مشکلات کا سبب رہا ہے۔ اس قانون کے ذریعے اسرائیل مشرقی یروشلم، غرب اُردن اور غزہ پٹی یعنی ان تمام علاقوں جن پر اس نے 1967 ء میں قبضہ کر لیا تھا اور جنہیں فلسطینی اپنے مستقبل کی خود مختار ریاست کے طور پر حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، وہاں کے فلسطینیوں کو اسرائیلی علاقوں سے دور سے دور تک رکھا گیا۔ اسرائیل کی دائیں بازو کی طاقتور جماعتیں اس قانون کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں۔ اس قانون کے 2003 ء میں نفاذ کے بعد سے ہر سال اس کی تجدید ہوتی رہی ہے۔
اب اسرائیل کی نو منتخب حکومت میں اس قانون کے مخالفین بھی شامل ہیں اور دائیں بازو کی اپوزیشن بھی جس کی قیادت سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کر رہے ہیں۔ اپوزیشن نئی حکومت کو شرمندہ کرنے کے لیے اسے خبر دار کر رہی ہے کہ وہ اس متنازعہ قانون کی تجدید اور دوبارہ منظوری کے لیے مطلوبہ ووٹ فراہم نہیں کرے گی۔
شہریت اور اسرائیل میں داخلے سے متعلق عارضی قانون کو 2003 ء میں ایک ایسے وقت پر نافذ کیا گیا تھا جب دوسرا انتفاضہ یا فلسطینی بغاوت اپنے عروج پر تھی۔ تب فلسطینیوں نے اسرائیل پر متعدد خونریز حملے شروع کر دیے تھے۔ مذکورہ قانون کے حامیوں کا کہنا تھا کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے فلسطینی غزہ کے مسلح گروپوں میں بھرتی کے لیے با آسانی تیار تھے اور ان پر مسلح گروپوں کا اثر بہت آسانی سے ہو رہا تھا۔ اُس وقت صرف سکیورٹی معائنہ ناکافی تھا۔
2005 ء میں فلسطینی بغاوت کے ٹھنڈا پڑ جانے کے بعد اور فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل پر حملوں میں کمی کے بعد بھی اس قانون کی مسلسل تجدید کی جاتی رہی۔
آج مغربی کنارے سے ایک لاکھ سے زائد فلسطینی کارکن روزانہ بنیادوں پر اسرائیل میں داخل ہوتے ہیں جس کی اسرائیل نے باقاعدہ اجازت دے رکھی ہے۔ اسرائیل کے جمہوریت کے امور سے متعلق ایک ادارے سے منسلک ماہر ژویل شانی کے بقول، ”یہ قانون انتفاضہ کے بالکل وسط میں منظور ہوا تھا مگر اب ہم ایک بالکل مختلف وقت اور عہد میں ہیں۔‘‘ اب نہ صرف حملوں میں کمی آئی ہے بلکہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی نگرانی کے لیے اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو بہت بہتر بنالیا ہے۔ ژویل شانی نے کہا، ” میں نہیں سمجھتا کہ اس قانون کے دفاع کے لیے سکیورٹی اس وقت ایک ٹھوس دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
مذکورہ قانون کی وجہ سے عرب شہریوں کے پاس مغربی کنارے اور غزہ کے علاقوں سے اپنے شریک حیات کو اسرائیل لانے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ یہ قانون ہزاروں خاندانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ 35 برس سے زیادہ عمر کے شوہروں اور 25 سال کی عمر سے زیادہ کی بیویوں نیز انسانی بنیادوں پر اسرائیل میں داخل کی اجازت حاصل کرنے والوں کو ٹورسٹ ویزہ یا سیاحتی ویزے کے قسم کے کسی اجازت نامے کی درخواست درج کرنا ہوگی۔ جن کے پاس اس نوعیت کا کوئی اجازت نامہ ہوگا اُس کی باقاعدگی سے تجدید کی جائے گی تاہم ایسے اجازت نامے کے ساتھ کوئی فلسطینی ڈرائیونگ لائسنس، صحت کی انشورنس وغیرہ اور روزگار کی زیادہ تر اقسام حاصل کرنے کے اہل نہیں۔ 2007 ء میں جب سے غزہ کو حماس نے اپنے قبضے میں لیا ہے تب سے غزہ کے فلسطینی میاں بیوی یا جوڑوں پر اسرائیل نے مکمل غدغن لگا رکھی ہے۔
ایسے فلسطینی جو اجازت نامے حاصل کرنے سے قاصر ہیں لیکن اسرائیل میں اپنے شریک حیات کے ساتھ رہ رہے ہیں، انہیں جلا وطنی کے خطرات لاحق ہیں۔ اگر ان کے بچے مغربی بینک میں پیدا ہوتے، ہیں تو ان پر بھی وہی قانون لاگو ہوتا ہے جو ان کے والدین پر تاہم نابالغوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ قانون فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے اندر اور اس کے کنٹرول والے علاقوں دونوں جگہ امیتازی سلوک کی بہترین مثال ہے۔
پیر کو اسرائیلی پارلمیان میں ہونے والی ووٹنگ کے نتائج سے پتا چلے گا کہ آیا فلسطینی جوڑوں پر لگی یہ پابندی برقرار رہتی ہے یا اس میں نرمی لانے کا فیصلہ ہوا ہے۔